1۔ معنی:۔
اُردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر‘ فوج کے ہیں۔
...
اُردو زبان کی تاریخ اور ارتقا۔
اُردو برصغیر کی زبانِ رابطۂ عامہ ہے۔ اس کا اُبھار 11 ویں صدی عیسوی کے لگ بھگ شروع ہو چکا تھا۔ اُردو ، ہند-یورپی لسانی خاندان کے ہند-ایرانی شاخ کی ایک ہند-آریائی زبان ہے. اِس کا اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی کے عہد میں ہوا اور مغلیہ سلطنت کے دوران فارسی، عربی اور ترکی کے اثر سے اس کی ترقّی ہوئی۔
اُردو (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے) دُنیا کی تمام زبانوں میں بیسویں نمبر پر ہے. یہ پاکستان کی قومی زبان جبکہ بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے.
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے. اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے. جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے
کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں. تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی ، اُردو سے نکلی۔اسی طرح اگر ار
دو اور ھندی زبان کو ایک سمجھا جاۓ تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے
تاریخ 
اردو کو سب سے پہلے مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے میں متعارف کروایا گیا۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ برِصغیرمیں 635 ریاستیں تھیں جن پر اکبر نے قبضہ کر لیا۔اتنے بڑے رقبے کی حفاظت کے لیے اسے مضبوط فوج کی ضرورت تھی۔اس لیے اس نے فوج میں نئے سپاہی داخل کرنے کا حکم دیا۔ان 635 ریاستوں سے کئی نوجوان امڈ آئے۔سب کے سب الگ الگ زبان کے بولنے والے تھے جس سے فوجی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا تھا۔اکبر نے نیا حکم جاری کیا کہ سب میں ایک نئی زبان متعارف کروائی جائے۔تب سب فوجیوں کو اردو کی تعلیم دی گئی جن سے آگے اردو برِصغیرمیں پھیلتی چلی گئی۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے لشکر۔دراصل مغلوں کے دور میں کئی علاقوں کی فوجی آپس میں اپنی زبانوں میں گفتگو کیا کرتے تھے جن میں ترکی،عربی اور فارسی زبانیں شامل تھیں۔چونکہ یہ زبانوں کا مجموعہ ہے اس لیے اسے لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کر زبان کے الفاظ اپنے اندر سمو لینے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔
بولنے والے اور جُغرافیائی پھیلاؤ 
معیاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس.آئی.ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے: 'دُنیا کی دس بڑی زبانیں' میں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو اور ہندی دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کُل آبادی کا 4.7 فیصد افراد بولتے ہیں۔
اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانیت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں۔ درحقیقت، ماہرینِ لسانیات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں. لوگ جو اپنے آپ کو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے، اور اِسی طرح اِس کے برعکس۔
پاکستان میں اردو 
اُردو کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں میں اعلٰی ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کردیئے ہیں جن کی زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے. اُردو پاکستان کی مُشترکہ زبان ہے اور یہ علاقائی زبانوں سے کئی الفاظ ضم کررہی ہے۔ اُردو کا یہ لہجہ اب پاکستانی اُردو کہلاتی ہے. یہ اَمر زبان کے بارے میں رائے تبدیل کررہی ہے جیسے اُردو بولنے والا وہ ہے جو اُردو بولتا ہے گو کہ اُس کی مادری زبان کوئی اَور زبان ہی کیوں نہ ہو. علاقائی زبانیں بھی اُردو کے الفاظ سے اثر پارہی ہیں. پاکستان میں کروڑوں افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان کوئی اَور ہے لیکن وہ اُردو کو بولتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ پانچ ملین افغان مہاجرین، جنھوں نے پاکستان میں پچیس برس گزارے، میں سے زیادہ تر اُردو روانی سے بول سکتے ہیں۔ وہ تمام اُردو بولنے والے کہلائیں گے۔ پاکستان میں اُردو اخباروں کی ایک بڑی تعداد چھپتی ہے جن میں روزنامۂ جنگ، نوائے وقت اور ملّت شامل ہیں۔
بھارت میں اردو 
بھارت میں، اُردو اُن جگہوں میں بولی اور استعمال کی جاتی ہے جہاں مسلمان اقلیتی آباد ہیں یا وہ شہر جو ماضی میں مسلمان حاکمین کے مرکز رہے ہیں۔ اِن میں اُتر پردیش کے حصے (خصوصاً لکھنؤ)، دہلی، بھوپال، حیدرآباد، بنگلور، کولکتہ، میسور، پٹنہ، اجمیر اور احمد آباد شامل ہیں. کچھ بھارتی مدرسے اُردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں، اُن کا اپنا خاکۂ نصاب اور طریقۂ امتحانات ہیں۔ بھارتی دینی مدرسے عربی اور اُردو میں تعلیم دیتے ہیں۔ بھارت میں اُردو اخباروں کی تعداد 35 سے زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیاء سے باہر اُردو زبان خلیجِ فارس اور سعودی عرب میں جنوبی ایشیائی مزدور مہاجر بولتے ہیں۔ یہ زبان برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، جرمنی، ناروے اور آسٹریلیا میں مقیم جنوبی ایشیائی مہاجرین بولتے ہیں۔
سرکاری حیثیت 
اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے. یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے. یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے.
اُردو بھارت کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے. یہ بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، بہار، جموں و کشمیر، اُتر پردیش، جھارکھنڈ، دارالخلافہ دہلی کی سرکاری زبان ہے۔ اس کے علاوہ مہاراشٹر، کرناٹک، پنجاب اور راجستھان وغیرہ ریاستوں میں بڑی تعداد میں بولی جاتی ہے۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے رکھا ہے۔
اردو زبان کی ابتداء کے متعلق نظریات 
زبان اردو کی ابتداء و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداء کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداء کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔
اردو کی ابتداء کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

۔ تعریف :۔
اُردو جو کہ آج برصغیر پاک و ہند کے علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے‘ اپنے علاقے کی مختلف علاقائی اور ہمسائیہ ملکوں کی زبانوں کا مجموعہ کہلائی جاتی ہے۔
3۔ ابتداء:۔
دہلی سلطنت کو اُردو کا بانی کہا جاتا ہے۔ مسلمان فاتحین کے دور میں جب سلطنت برصغیر کے طول و عرض میں پھیلی تو مختلف ریاستیں سلطنت میں شامل کی گئیں ہر سلطنت کی اپنی الگ زبان تھی جس پر ایک مشترکہ زبان کی بنیاد ڈالنے کا کام شروع کیا گیا۔
4۔ طریقہ :۔
اُردو نستعلیق (ریختہ) رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور زیادہ تر عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے اور چھتیس (36) حروف تہجی پر مشتمل ہے۔ جو زیادہ تر فارسی و عربی سے ہی مستعار لئے گئے ہیں جو کہ زبان اُردوئے معلیٰ ہیں۔
5۔بنیاد:۔
آسان الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُردو کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اُردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جس کا نام ”اُردو“ ہے۔ اُردو کا آبائی علاقہ دکن‘ میرٹھ اور لکھنو کو کہا جاتا ہے جبکہ دہلی سے سرکاری سرپرستی کی جاتی تھی۔ برصغیر کی ایک بہت اہم اوربڑی زبان ہونے کے باوجود اُردو کی تاریخ پر گہرے پردے پڑے ہوئے ہیں جن کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔
6۔ ساخت:۔
ساخت کے اعتبار سے اُردو ایک مخلوط زبان ہے جو دائیں سے بائیں جانب فارسی عربی کی طرح لکھی جاتی ہے۔ اُردو فارسی رسم الخط کی تشریح ہے جو کہ خود عربی کی تشریح ہے۔
7۔ لہجہ:۔
اُردو کے چند ایک لہجے ہی معیاری مانے جاتے ہیں‘ جبکہ ہر علاقے میں بولی جانے والی اُردو دوسرے علاقے کی اُدو سے لہجے اور الفاظ کی بنیاد پر مختلف بھی ہے۔ معیاری لہجے میں سے سب سے اہم دکن (دکنی) اور کھڑی بولی (دہلی) کے لہجے ہیں۔ باقی سب لہجے ان ہی در لہجوں کی تشریح کہلائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر جب دکنی لہجہ بھارتی ریاست اڑیسہ میں گیا تو مقامی زبان اوڑیا اور بنگالی بہاری سے مل کر اس لہجے سے بالکل ہی مختلف ہوگیا جو دکنی لہجہ پاکستان میں کراچی میں آیا اور مقامی سندھی‘ بلوچی اور پنجابی سے متاثر ہوکر بولا جانے لگا۔ زیادہ آسان الفاظ یا وسیع معنوں میں کہا جائے تو اُردو کے دو معیاری لہجے دکنی اور کھڑی بولی ہیں باقی سب علاقائی لہجے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بنگال میں اُردو بولنے والا کشمیر یا پشاور میں اردو بولنے والے کی بات سمجھ ہی نہ پائے۔
8۔ اُردو بولنے والے :۔
اُردو بولنے والے جن کی مادری زبان اردو ہو کی مجموعی تعداد تقریباً چھ سے سات کروڑ تک ہے۔ جس میں سے پانچ کروڑ بھارت میں جو کہ بھارت کی آبادی کا چھ فیصد اور تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ پاکستان میں جو کہ پاکستان کی آبادی کا آٹھ فیصد اور باقی تعداد بنگلہ دیش میں جو بہاری کہلاتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد سعوی عرب ‘ متحدہ عرب امارات سمیت مشرق وسطیٰ‘ انگلینڈ‘ امریکہ‘ یورپ اور دنیا کے باقی ممالک میں بھی ہے جو کہ بنیادی طور پر برصغیر سے ہی وہاں جاکر آباد ہوئی ہے۔ اس میں تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین میں شامل ہیں اور پچھلے تیس سال سے پاکستان میں رہ رہے ہیں اور اب اُردو کو ہی رابطہ کی زبان کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔
آج اُردو زبان پاکستان اور بھارت کی چھ ریاستوں اتر پردیش‘ بہار‘ آندھرا پردیش‘ جموں و کشمیر اور دہلی کی سرکاری زبان ہے۔
9۔ اُردو پاکستان میں :۔
اُردو زبان کو پورے پاکستان میں رابطہ زبان کا درجہ حاصل ہے باوجود اس کے کہ بانوے فیصد پاکستانیوں کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور ہے۔ اردو پورے پاکستان میں بولی‘ سمجھی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔ تقریباً ہر سکول اور کالج میں اردو کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ اردو میڈیم سکول اور مدرسوں میں اردو لازمی اور ذریعہ تعلیم کی بنیادی زبان ہے۔
10۔ اُردو ادب:۔
اُردو زبان کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا ہاتھ اگر ادیبوں اور شاعروں کا کہا جائے تو یہ بات غلط نہ ہوگی۔ گذشتہ دو سو سے تین سو سال میں جب سے شعراءاور ادیبوں نے اردو زبان کو اپنا اظہار خیال بنایا تو یہی بنیادی وجہ تھی جو آج اردو کو دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں ایک اہم مقام دلاتی ہے۔
اردو ادب میں نثر اور شعر دو بنیادی ذریعہ اظہار ہیں اور پھر شعر کے اندر مزید غزل‘ نظم‘ منقبت‘ مدح‘ سلام‘ سوس‘ قصیدہ‘ مرثیہ‘ نوحہ اور حمد و نعت مشہور سلسلے ہیں۔
11۔ اُردو کے مشہور شعراءکرام :۔
امیر خسرو (1325-1253)‘ مرزا محمد رفیع سودا (1780-1743)‘ ولی محمد ولی دکنی (1707-1667)‘ خواجہ میر درد (1785-1721)‘ میر تقی میر (1810-1723)‘ انشاءاللہ خان انشاء(1813-1756)‘ بہادر شاہ ظفر (1862-1775)‘ امام بخش ناسک (1838-1776)‘ خواجہ حیدر علی آتش (1846-1778)‘ محمد ابراہیم خان ذوق (1854-1789)‘ مرزا اسد اللہ غالب (1869-1797)‘ مومن خان مومن (1852-1801)‘ مرزا سلامت علی دبیر (1875-1803)‘ مرزا بابر علی انیس (1874-1803)‘ امیر مینائی (1900-1828)‘ داغ دہلوی (1909-1831)‘ الطاف حسین حالی (1914-1837)‘ حسرت موہانی (1927-1862)‘ علامہ محمد اقبال (1938-1877)‘ فانی ہدیوانی (1941-1879)‘ برج نرائن چکبست (1926-1882)‘ جگر مراد آبادی (1960-1890)‘ فراق گورکھپوری (1982-1896)‘
12۔ موجودہ دور کے شعراءکرام :۔
محمد حفیظ جالندھری (1982-1900)۔ نون میم راشد (1975-1910)‘ فیض احمد فیض (1984-1919)‘ مجید امجد (1974-1914)‘ احسان دانش (1982-1914)‘ احمد ندیم قاسمی (2006-1916)‘ ضمیر جعفری (1994-1916)‘ شکیل بدیوانی (1970-1916)‘ جگن ناتھ آزاد (2004-1918)‘ کیف عظمی (2002-1918)‘ خمار بارہ بنکوی (1999-1919)‘ قتیل شفائی (2004-1919)‘ ساحر لدھیانوی (1980-1921)‘ ناصر کاظمی (1972-1925)‘ ابن انشاء(1918-1927)‘ ساغر صدیقی (1974-1928)‘ منیر نیازی (2006-1928)‘ احمد فراز (2008-1931)‘ جون ایلیا (2003-1931)‘ گلزار (1936)‘ امجد اسلام امجد (1944)‘ پروین شاکر (1994-1952)۔
ﮐﻮﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﻣﯿﮟ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺜﻨﻮﯼ ﻧﮕﺎﺭ == ﺁﺑﺮﻭ،ﻧﻈﺎﻣﯽ،ﻏﻮﺍﺻﯽ،ﻣﻼﻭﺟﮩﯽ،ﻣﯿﺮﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ،ﻣﻮﻣﻦ ﺧﺎﻥ ﻣﻮﻣﻦ،ﻣﯿﺮﺣﺴﻦ،ﺩﯾﺎﺷﻨﮑﺮﻧﺴﯿﻢ،ﻧﻮﺍﺏ ﻣﺮﺯﺍﺷﻮﻕ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﻧﺸﺎﺋﯿﮧ ﻧﮕﺎﺭ == ﺳﺮﺳﯿﺪﺍﺣﻤﺪ،ﮈﺍﮐﭩﺮﻭﺯﯾﺮﺍﻏﺎﻏﻼﻡ ﺟﯿﻼﻧﯽ،ﺍﺻﻐﺮ،ﻣﺸﺖﺍﻕ ﻗﻤﺮ،ﺟﻤﯿﻞ ﺁﺫﺭ , ﮐﻤﻞ ﺍﻟﻘﺎﺩﺭﯼ،ﺟﺴﭩﺲ ﺭﺳﺘﻢ ﮐﯿﺎﻧﯽ،ﻧﻈﯿﺮﺻﺪﯾﻘﯽ،ﻣﺸﮑﻮﺭ ﺣﺴﯿﻦ ﯾﺎﺩ،ﺭﺍﻡ ﻟﻌﻞ ﻧﺎﺑﮭﻮﯼ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺧﺎﮐﮧ ﻧﮕﺎﺭ == ﻣﺤﻤﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺁﺯﺍﺩ،ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻖ،ﺭﺷﯿﺪ ﺍﺣﻤﺪ ﺻﺪﯾﻘﯽ،ﻓﺮﺣﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﮓ،ﺭﺋﯿﺲ ﺍﺣﻤﺪ ﺟﻌﻔﺮﯼ،ﭼﺮﺍﻍ ﺣﺴﻦ ﺣﺴﺮﺕ،ﻏﻼﻥ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﮩﺮ،ﻣﺤﻤﺪ ﻃﻔﯿﻞ،ﺷﻮﮐﺖ ﺗﮭﺎﻧﻮﯼ،ﺳﻌﺎﺩﺕ ﺣﺴﻦ ﻣﻨﭩﻮ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻧﻘﺎﺩ == ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺣﺎﻟﯽ،ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﯿﺪ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ،ﺍﺣﺘﺸﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ،ﻋﺰﯾﺰ ﺍﺣﻤﺪ،ﻣﺠﻨﻮﮞ ﮔﻮﺭﮐﮫ ﭘﻮﺭﯼ،ﻭﺯﯾﺮﺁﻏﺎ،ﺟﻢﯾﻞ ﺟﺎﻟﺒﯽ،ﺣﺴﻦ ﻋﺴﮑﺮﯼ،ﺍﺣﺴﻦ ﻓﺎﺭﻭﻗﯽ،ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﻠﯿﻢ ﺍﺧﺘﺮ،ﻓﺮﻓﺎﻥ ﻓﺘﺢ ﭘﻮﺭﯼ،ﺁﻝ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﺮﻭﺭ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮈﺭﺍﻣﺎ ﻧﮕﺎﺭ == ﺁﻏﺎﺣﺸﺮ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ،ﺷﻤﺲ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ،ﮐﯿﻔﯽ ﺩﮨﻠﻮﯼ،ﺷﺮﺭ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ،ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﻋﻠﯽ ﺗﺎﺝ،ﻣﺮﺯﺍﺍﺩﯾﺐ،ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺛﺮﯾﺎ ﺑﺠﯿﺎ،ﺍﻣﺠﺪ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺠﺪ،ﺍﺻﻐﺮﻧﺪﯾﻢ ﺳﯿﺪ،ﺑﺎﻧﻮﻗﺪﺳﯿﮧ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺰﺍﺡ ﻧﮕﺎﺭ ‏( ﻧﺜﺎﺭ ‏) == ﻏﺎﻟﺐ،ﭘﻄﺮﺱ،ﺭﺷﯿﺪ،ﮐﺮﻧﻞ ﻣﺤﺪ ﺧﺎﻥ،ﺷﻔﯿﻖ ﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ،ﻣﺸﺘﺎﻕ ﯾﻮﺳﻔﯽ،ﺍﺑﻦ ﺍﻧﺸﺎ،ﻓﺮﺣﺖ ﺍﻟﻠﮧ ﺑﯿﮓ،ﺣﺴﻦ ﻧﻈﺎﻣﯽ،ﻓﮑﺮﺗﻮﻧﺴﻮﯼ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺰﺍ ﺡ ﻧﮕﺎﺭ ﺷﺎﻋﺮ == ﺍﮐﺒﺮ،ﺍﺣﻤﻖ ﭘﮭﭙﮭﻮﻧﺪﯼ،ﻧﺬﯾﺮ ﺷﯿﺦ،ﻣﺠﯿﺪ ﻻﮨﻮﺭﯼ،ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺟﻌﻔﺮﯼ،ﺭﺍﺟﮧ ﻣﮩﺪﯼ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ،ﻇﺮﯾﻒ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ،ﺩﻻﻭﺭﻓﮕﺎﺭ،ﺿﻤﯿﺮ ﺟﻌﻔﺮﯼ،ﺍﻧﻮﺭ ﻣﺴﻌﻮﺩ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺳﻮﺍﻧﺢ ﻧﮕﺎﺭ == ﺷﺒﻠﯽ،ﺣﺎﻟﯽ،ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺫﮐﺎ ﺍﻟﻠﮧ،ﺳﯿﻠﻤﺎﻥ ﻧﺪﻭﯼ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﯽ،ﻣﺮﺯﺍﺣﯿﺮﺕ ﺩﮨﻠﻮﯼ،ﻣﺤﻤﺪ ﺩﯾﻦ ﻓﻮﻕ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺮﺍﺯﻕ،ﺍﯾﻮﺏ ﻣﺮﺯﺍ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺁﭖ ﺑﯿﺘﯽ ﻧﮕﺎﺭ == ﺟﻮﺵ،ﺣﮑﯿﻢ ﺍﺣﻤﺪ ﺷﺠﺎﻉ،ﻗﺪﺭﺕ ﺍﻟﻠﮧ ﺷﮩﺎﺏ،ﺩﯾﻮﺍﻥ ﺳﻨﮕﮫ ﻣﺘﻮﻥ،ﺣﺴﯿﻦ ﺍﺣﻤﺪ ﻣﺪﻧﯽ،ﺷﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﺠﯿﺪ ﺳﺎﻟﮏ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻤﺎﺟﺪ ﺩﺭﯾﺎ ﺁﺑﺎﺩﯼ،ﺷﻮﺭﺵ،ﻗﺮﺍۃ ﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﯿﺪﺭ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻧﻌﺖ ﮔﻮ == ﮐﺮﺍﻣﺖ ﻋﻠﯽ ﺷﮩﯿﺪﯼ،ﺍﻣﯿﺮ ﻣﯿﻨﺎﺋﯽ،ﻇﻔﺮ ﻋﻠﯽ ﺧﺎﻥ،ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺿﺎ،ﻣﺤﺴﻦ ﮐﺎﮐﻮﺭﻭﯼ،ﺑﯿﺪﻡ ﻭﺍﺭﺛﯽ،ﺣﺎﻓﻆ ﻣﻈﮩﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ،ﺣﺎﻓﻆ ﻟﺪ ﮬﯿﺎﻧﻮﯼ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﺧﺎﻟﺪ،ﺣﻔﯿﻆ ﺗﺎﺋﺐ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮔﻮ == ﻋﻄﺎﺣﺴﯿﻦ ﺧﺎﻥ ﺗﺤﺴﯿﻦ،ﻣﯿﺮﺍﻣﻦ ﺩﮨﻠﻮﯼ،ﺭﺟﺐ ﻋﻠﯽ ﺑﯿﮓ،ﺣﯿﺪﺭ ﺑﺨﺶ ﺣﯿﺪﺭﯼ،ﺧﻠﯿﻞ ﺧﺎﻥ ﺍﺷﮏ،ﺷﯿﺮ ﻋﻠﯽ ﺍﻓﺴﻮﺱ،ﻣﺮﺯﺍ ﻋﻠﯽ ﻟﻄﻒ،ﻟﻠﻮﻻﺟﯽ،ﮐﺎﻅﻡ ﺟﻮﺍﮞ،ﻧﮩﺎﻝ ﭼﻨﺪ ﻻﮨﻮﺭﯼ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻧﺎﻭﻝ ﻧﮕﺎﺭ == ﻧﺬﯾﺮ ﺍﺣﻤﺪ،ﺭﺗﻦ ﻧﺎﺗﮫ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﺤﻠﯿﻢ ﺷﺮﺭ،ﮨﺎﺩﯼ ﺭﺳﻮﺍ،ﭘﺮﯾﻢ ﭼﻨﺪ،ﻧﺴﯿﻢ ﺣﺠﺎﺯﯼ،ﻗﺮﺍۃ ﺍﻟﻌﯿﻦ ﺣﯿﺪﺩ،ﺳﺠﺎﺩ ﻇﮩﯿﺮ،ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺣﺴﯿﻦ،ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻣﻔﺘﯽ،ﺑﺎﻧﻮ ﻗﺪﺳﯿﮧ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ﻧﮕﺎﺭ == ﺭﺍﺷﺪ،ﯾﻠﺪﺭﻡ،ﭘﺮﯾﻢ ﭼﻨﺪ،ﺭﺍﺟﻨﺪﺭ ﺳﻨﮕﮫ ﺑﯿﺪﯼ،ﻋﺼﻤﺖ ﭼﻐﺘﺎﺋﯽ،ﻣﻨﭩﻮ،ﮐﺮﺵﻥ ﭼﻨﺪﺭ،ﻏﻼﻡ ﻋﺒﺎﺱ،ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺣﺴﯿﻦ،ﻧﺪﯾﻢ ﻗﺎﺳﻤﯽ،ﺍﺷﻔﺎﻕ ﺍﺣﻤﺪ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻏﺰﻝ ﮔﻮ == ﻭﻟﯽ،ﻣﯿﺮ،ﻏﺎﻟﺐ،ﻣﻮﻣﻦ،ﺁﺗﺶ،ﺩﺍﻍ،ﮐﺎﻇﻢ
ﯼ،ﻓﯿﺾ،ﻓﺮﺍﻕ،ﻧﺪﯾﻢ ﻗﺎﺳﻤﯽ،ﺍﻣﺠﺪ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺠﺪ،ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻣﺠﺪ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻧﻈﻢ ﻧﮕﺎﺭ == ﻧﻈﯿﺮ ﺍﮐﺒﺮ ﺁﺑﺎﺩﯼ،ﺣﺎﻟﯽ،ﺍﻗﺒﺎﻝ ،ﺍﺣﺘﺮﺷﯿﺮﺍﻧﯽ،ﺟﻮﺵ ﻣﻠﯿﺢ،ﺣﻔﯿﻆ،ﻣﯿﺮﺍﺝﯼ،ﺭﺍﺷﺪ،ﻣﺠﯿﺪ ﺍﻣﺠﺪ،ﺍﺣﺘﺮﺍﻻﯾﻤﺎﻥ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ﻣﺮﺛﯿﮧ ﻧﮕﺎﺭ == ﻓﻀﻠﯽ،ﺷﺠﺎﻉ،ﺳﻮﺩﺍ،ﻣﯿﺮ ﺧﻠﯿﻖ،ﻣﯿﺮ ﺿﻤﯿﺮ،ﺩﺑﯿﺮ،ﺍﻧﯿﺲ،ﻣﯿﺮ ﺗﻌﺸﻖ،ﻣﯿﺮ ﻧﻔﯿﺲ،ﺟﻮﺵ ﻣﻠﯿﺢ ﺁﺑﺎﺩﯼ،،،
13۔ اُردو ادب :۔
اردو ادب میں ذریعہ اظہار کے مختلف طریقے ہیں جیسے ناول نگاری‘ داستان گوئی‘ افسانہ نگاری‘ ڈرامہ نگاری‘ مکالمہ‘ تذکرہ‘ سفرنامہ‘ افسانچہ‘ خطوط‘ تاریخ‘ تنقید‘ فلسفہ۔
....
اردو ادب کی اصطلاحات
اردو ادب کے دامن میں ان گنت تراکیب و اصطلاحات موجود ہیں۔ ہم اردو ادب کی اصطلاحات سے بہت حد تک شناسا ہونے کے باوجود ان سے کلی طور پر کم ہی واقف ہو پاتے ہیں۔ گرچہ یہ موضوع بہت وسیع ہے تاہم ان سے کسی حد تک واقف ہونے کے لیے ذیل میں فقط ان اصطلاحات کی فہرست درج ہے۔
علوم قواعد
1۔علمِ صرف 2۔ علمِ نحو 3۔ علمِ عروض 4۔علمِ شعر 5۔ علمِ قافیہ 6۔ علم معانی / علم بدیع 7۔علم بیان 8۔ علمِ لغت 9۔ علمِ اشتقاق 10 ۔ علمِ انشا 11 ۔ علمِ خط 12 ۔ علمِ تاریخ
علم بیان کی چار اقسام میں تشبیہ ، استعارہ، کنایہ ، مجاز مرسل شامل ہیں۔
تخلیقی ادب
تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔
افسانوی ادب غیر افسانوی ادب
داستان ۔ ناول ۔ افسانہ ۔ ڈراما مقالہ ۔ مضمون ۔ تاریخ ۔ (سوانح/ سوانح حیات / آپ بیتی /خود نوشت سوانح )۔ خود نوشت ۔ (خاکہ/خاکہ نگاری) – سفر نامہ ۔ طنز و مزاح ۔ (مکتوب/خط)
(ڈائری/روزنامچہ) ۔ انشائیہ ۔ (تذکرہ / تذکرہ نگاری) ۔ دیباچہ، مراسلہ ۔ روزنامچہ ۔ تبصرہ ۔ لغت نویسی ۔ رپورتاژ
نظم و نثر
نثر شاعری
(کہانی /مختصر کہانی )
ڈراما ۔ ناول ۔ ناولیٹ
افسانہ ۔ افسانچہ ۔
( خاکہ/ خاکہ نگاری ) ۔
انشائیہ ۔ سفرنامہ ۔
(سوانح /سوانح حیات ) ۔
(داستان / قصہ )
فلم ۔ پیروڈی ۔تنقید ۔
(کالم/ بیانیہ / مقالہ /مضمون)
( حمد ۔ نعت/نعتیہ قصیدہ ۔ مدح ۔ قصیدہ ۔ منقبت ۔ مناجات ۔ سلام ۔ مرثیہ۔شخصی مرثیہ ۔ شاہنامہ ۔ رزمیہ/رزم نامہ )
( غزل ۔ مثنوی ۔جدید مثنوی ۔ نظم ۔ پابند نظم ۔ شہرآشوب ۔ واسوخت ۔ ریختی ۔ہجو ۔ تلمیح )
(ثلاثی ۔ رباعی ۔قطعہ ۔ مخمس ۔مسدس )
( ماہیا ۔ سہرا ۔ دوہا ۔ گیت ۔)
بیرونی زبانوں کی ہئیتیں
(معریٰ نظم ۔ آزاد نظم ۔ سانیٹ ۔ ترائیلے ۔ ہائیکو ۔ نثری شاعری ۔)
نظم کی اقسام :
موضوعاتی نظم ، نیچرل نظم ، وطنی نظم ، قومی نظم ، رومانی نظم ، انقلابی نظم ، علامتی نظم ، آزاد نظم ، معری نظم ، جدید نظم )
غزل کی اقسام :
( مردف غزل ، غیرمردف غزل )
غزل کے اجزائے ترکیبی : ( 1۔ ردیف 2۔ قافیہ 3۔ مطلع 4۔ مقطع)
نظم کو موضوعات کے حوالے سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں واسوخت۔قصیدہ۔ شہرآشوب۔مرثیہ۔ شامل ہیں
صنعتی شاعری اور صنعتوں کی اقسام ترميم
علم میں مختلف قسم کی صنعتیں بیان کی جاتی ہیں۔اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ا۔صنائع لفظی :۔
ب۔ صنائع معنوی:۔
صنائع لفظی صنائع معنوی
صنعتِ تجنیس ۔ صنعتِ تثلیث ۔ صنعتِ اشتقاق ۔ صنعتِ شبہِ اشتقاق ۔ (صنعتِ تکریر/صنعتِ تکرار )۔ صنعتِ تصحیف ۔
صنعتِ توسیم ۔ صنعتِ ایداع ۔(صنعتِ متتابع /استتباع) ۔(صنعتِ تزلزل /متزلزل) ۔(صنعتِ قلب /مقلوب ) ۔
صنعتِ ردا لعجز علی الصدر ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الارض ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الابتدا ۔ صنعتِ ردا لعجز علی الحشو ۔صنعتِ مجنح
صنعتِ محاذ ۔ صنعتِ قطار العبیر ۔ صنعتِ تفریح ۔ صنعتِ قلب ۔ صنعتِ مقلوب ۔ صنعتِ مثلث ۔
صنعتِ ترصیع ۔صنعتِ ایہام۔صنعتِ مبادلہ الراسین ۔ صنعتِ تضمین المزدوج ۔ صنعتِ ترافق۔( صنعتِ نظم والنثر / سہل ممتنع)
(صنعتِ مربع/چہار در چہار) ۔صنعتِ مدور ۔ صنعتِ اقسام الثلثہ ۔ صنعتِ سیاق الاعداد ۔صنعتِ مسمط ۔ صنعتِ توشیح ۔
صنعتِ ترصیح ۔صنعتِ متلون ۔ صنعتِ مخذف ۔ (صنعتِ ذوالقوافی/ ذوالقافتین)۔ صنعتِ مشجر ۔(صنعتِ لزوم ما لا یلزم )۔
(صنعتِ حذف / قطع الحروف) ۔(صنعتِ عاطلہ / مہملہ / غیر منقوطہ) ۔ صنعتِ منقوطہ ۔ صنعتِ خیفا ۔ صنعتِ رقطا ۔
صنعتِ فوق النقاط ۔ صنعتِ تحت النقاط ۔ صنعتِ واصل الشفتین۔صنعتِ واسع الشفتین ۔ صنعتِ جامع الحروف ۔
صنعتِ مخلوط ۔ صنعتِ منشاری ۔ صنعتِ مقطع یا غیر موصل ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ اربعہ الحروف ۔ صنعتِ معجزہ الاستہ والشفا ۔
صنعتِ متحمل المعانی ۔ صنعتِ معرب ۔صنعتِ افراد ۔ صنعتِ موصل ۔ صنعتِ اظہارِ مضمر ۔ صنعتِ معما ۔ ( صنعتِ نغز / چیستاں / پہیلی )
صنعتِ تابع مہمل ۔ صنعتِ اشارہ ۔ صنعتِ تلمیح ۔
(صنعتِ تضاد/ طباق ) ۔ صنعتِ تذبیح ۔ (صنعتِ ایہام / تضاد )۔ ( صنعتِ ایہام / توریہ ) ۔ (صنعتِ استباح / مدح الموجہ )
(صنعتِ مراۃ النظیر /تناسب) ۔ ( صنعتِ تنسیق الصفات )۔ صنعتِ براعت الاستہلال ۔ صنعتِ تشابہ الاطراف ۔
صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ اطراد ۔ صنعتِ ارصاد ۔ صنعتِ تاکید المدح بما یشبہ الذم ۔ صنعتِ تاکید الذم بما یشبہ المدح ۔
صنعتِ الحاق النجزی بالکلی ۔ صنعتِ تجرید ۔صنعتِ مقابلہ ۔ صنعتِ متحمل الضدین ۔ صنعتِ ہجوِ ملیح ۔ صنعتِ استدراک ۔
صنعتِ تجاھلِ عارفانہ ۔ صنعتِ لف و نشر ۔ صنعتِ جمع ۔صنعتِ تفریق ۔ صنعتِ تقسیم ۔ صنعتِ جمع و تفریق ۔
صنعتِ جمع و تفریق و تقسیم ۔ صنعتِ رجوع ۔ صنعتِ حسنِ تعلیل ۔ صنعتِ مشاکلہ ۔ صنعتِ عکس ۔
صنعتِ قول بالموجب ۔ صنعتِ مذہبِ کلامی ۔ صنعتِ مذہبِ فقہی ۔ صنعتِ ادماج ۔ صنعتِ مبالغہ ۔ صنعتِ تعجب ۔
صنعتِ جامع اللسانین ۔ صنعتِ ذو رویتین ۔ صنعتِ ذو ثلثہ ۔ صنعتِ ترجمہ اللفظ ۔ صنعتِ ابداع ۔ صنعتِ تصلیف
صنعتِ صلب و ایجاد ۔ صنعتِ کلامِ جامع ۔ صنعتِ ایرادالمثل / ارسال المثل ۔ صنعتِ استخدام ۔
صنعتِ الہزال الذی یراد بہ الجد / ہزل ۔ صنعتِ تلمیح ۔ صنعتِ نسبت ۔ صنعتِ اتفاق / حسنِ مقطع ۔ صنعتِ اتساع
صنعتِ تضاد ۔صنعتِ سوال و جواب ۔ صنعتِ تجنیس ۔
1۔صنعتِ اہمال 2۔ صنعتِ لزوم مالایلزم 3۔صنعتِ ہما 4۔ صنعتِ ابہام
5۔ صنعتِ مُبالغہ 6۔صنعتِ حُسن التعلیل 7۔صنعتِ طباق 8۔صنعتِ مراعات النظیر
9۔ صنعتِ لف و نشر 10۔صنعتِ مہملہ 11۔صنعتِ تلمیح 12۔صنعتِ معاد
13۔صنعت رجوع 14۔صنعتِ ترصیح 15۔صنعتِ تنسق الصفات 16۔صنعتِ سیاق اعداد
17۔صنعتِ ذو قافیتین و ذو القوافی 18۔صنعتِ جمعیت الفاظ 19۔صنعتِ تضاد 20۔صنعتِ ضرب المَثَل
صنعت توشیع 
اردوتنقید میں مستعمل دیگر اصطلاحات ترميم
آزاد تلازمہِ خیال ۔ آفاقیت ۔ آہنگ ۔ (آزاد نظم / فری ورس )ابتذال ۔ ابدیت ۔ اجتماعیت ۔ اجتماعی لاشعور ۔(اجمال / اختصار / ایجاز ) ۔ ادب برائے ادب ۔ ادب برائے زندگی ۔ ادب لطیف ۔ ( ارتفاع / عروج / بلندی ) ۔ استعارہ۔
اشتراکیت ۔اشتقاق ۔اشکال ۔ اصلیت /واقعیت ) ۔ انفرادیت ۔ (ایہام/ توریہ) ۔ ایہام تناسب ۔ ایہام گوئ ۔
بدیع ۔ (برجستہ /برجستگی) ۔ (بلینک ورس / نظم معری) ۔ بیت الغزل۔ (بورژوا / پرولتاریہ) ۔ بورژوازی۔ پرولتاریہ ۔بیان(علم) ۔ پلاٹ ۔ ( پیکر/ پیکر تراشی ) ۔ (تجاہل عارفانہ / تجنیس) ۔ تحلیلِ نفسی ۔ تخیل ۔ ترقی پسند ادبی تحریک
ترقی پسندی ۔ تخلص ۔ تلمیح۔ تشبیب ۔ تحت اللفظ ۔تشبیہ۔ تزکیہ Catharsis ۔ تشبیہ ۔ (تضاد / طباق ) ۔ تضمین۔تعقید ۔ تغزل ۔ تفحص الفاظ ۔ تقریظ ۔ تکنیک۔تلمیح ۔تمثیل ۔ تنافر ۔توالی اضافات ۔ توجیہ ۔ ٹکسالی زبان
جدت ادا ۔ جدلیاتی مادیت ۔ جمالیات ۔ (جوش/جوش بیان) ۔ (چیستان / معما) ۔ حسن تعلیل ۔ (حشو/ زوائد) ۔ (حقیقت پسندی / حقیقت نگاری) ۔ (فطرت پسندی / فطرت نگاری) ۔ خارجیت ۔
داخلیت۔ دبستان ۔ ربط ۔ رجعت پسندی ۔ رزمیہ ۔(رعایت لفظی / مناسبت لفظی) ۔ روایت ۔ رومانویت ۔ردیف ۔ روزمرہ ۔ ریختی ۔ زٹل ۔ زمین
سادگی ۔ سراپا ۔ماورائے حقیقت پسندی ۔ سرقہ ۔سلاست۔ سلام ۔ سوز و گداز۔ سوقیانہ ۔ سہلِ ممتنع ۔ شاعری ۔ شعر ۔ شعور کی رو ۔ ( شکوہِ الفاظ / شوکتِ الفاظ ) ۔ شہر آشوب ۔
صنعت ۔ ( صنمیات / اساطیر/ دیومالا) ۔ ضرب المثل ۔ ضرب‌المثل ۔ضعفِ تالیف ۔ضلع جگت ۔ طبقاتی کشمکش ۔ ظرافت ۔ بذلہ ۔ پند ۔طنز ۔ مزاح ۔ ہزل ۔
عقلیت ۔ علامت ۔علامتیت ۔ عملیت ۔ ( عینیت / تصوریت / مثالیت ) ۔ ( غرابت / غریب ) ۔ (فاشزم / فسطائیت ) ۔ فحاشی۔ فرد ۔ فصاحت ۔ بلاغت ۔ قافیہ ۔قولِ محال ۔ قافیہ ۔
کردار ۔ (کلاسک/کلاسیک)۔کلاسیکیت ۔ کنایہ ۔ کنایہ ۔ گرہ ۔ گلدستہ۔ گریز۔لاشعور ۔لف و نشر ۔ لہجہ ۔مادیت ۔ مبالغہ ۔ مجاز ۔ مجازِ مرسل ۔مطلع ۔مقطع ۔مصرع ۔محاکات ۔ محاورہ ۔ مراعات النظیر ۔ مزاح ۔ (مضمون / مضمون آفزینی)
معاملہ بندی ۔ علمِ معانی ۔ ( معنی / معنی آفزینی ) ۔ ( مہملہ / مہملا) ۔ مجاز مرسل ۔ محاورہ ۔( موضوع )
نازک خیالی ۔ نثرِ عا ری ۔ نثرِ مرجز ۔ نثرِ مسجع ۔ نثرِ مقفی ۔نشاۃ الثانیہ ۔ نعت ۔( نقطہِ عروج / منتہی ) ۔ نوٹنکی ۔ نوحہ ۔ نیچرل شاعری ۔ واسوخت ۔ واقعہ نگاری ۔ وجدان ۔ وحدتِ تاثر ۔ وحدتِ ثلاثہ ۔ ہزل ۔ہیرو-
...
۔*# اردو زبان کے چند اہم قوائد و تعریفات #*
*حمد* : نظم جس میں اللہ کی تعریف ہو
*نعت* : رسول اکرم ص کی تعریفی نظم
*قصیدہ/منقبت* : کسی بھی شخصیت کی توصیفی نظم
*مثنوی* :چھوٹی بحر کی نظم جسکے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر شعر کا قافیہ الگ ہو۔
*مرثیہ* : موت پہ اظہارِ رنج کی شاعری کی نظم
*غزل* : عورتوں کی شاعری عشق، حسن و جمال و ہجر و فراق پہ شاعری
*نظم*: ایک ہی مضمون والی مربوط شاعری
*قطعہ*: بغیر مطلع کے دو یا دو سے ذیادہ اشعار جس میں ایک ہی مضمون کا تسلسل ہو
*رباعی*: چار مصرعوں کی نظم جسکا پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوں۔
*مخمس*: وہ نظم جسکے بند پانچ پانچ مصرعوں کے ہوں
*مسدس*: وہ نظم جسکے ہر بند کے چھے مصرعے ہوں
*داستان*: کہانی کی قدیم قسم
*ناول*: مسلسل طویل قصہ جس کاموضوع انسانی زندگی ہو اور کردار متنوع ہوں
*افسانہ*: مختصر کہانی
*ڈرامہ* : کہانی جسکو اسٹیج پہ کرداروں کی مدد سے پیش کیا جائے
معلومات اردو ادب
( ڈرامہ)
سوال ڈرامہ کس زبان کا لفظ ہے؟
جواب لفظ ڈرامہ اپنی اصل کے اعتبار سے یونانی ہے-
سوال ڈرامے کے کیا معنی ہیں؟
جواب عمل کرنا یا کچھ کر کے دکھانا-
سوال ڈرامے سے مراد کون سی کہانی ہے؟
جواب اصطلاح میں ڈرامے سے مراد ایسی کہانی ہے جسے سٹیج پر کرداروں کی مدد سے پیش کیا جائے -
سوال ڈرامے کے اجزائے ترکیبی کون سے ہیں -
جواب
1اسٹیج
2 تماشائی
3 پلاٹ
4 تصادم اور کشمکش
5 کردار
6 مکالمہ
7 تجسس
8 نقطہ عروج
9 موسیقی
سوال ڈرامے کی کتنی اقسام ہیں؟
جواب دو (المیہ اور طربیہ) 
سوال المیہ کس ڈرامے کو کہتے ہیں؟
جواب جو ڈرامہ المناک انجام سے دو چار ہو اسےالمیہ کہتے ہیں-ایسے ڈراموں کے واقعات درد انگیز اور المناک ہوتے ہیں-
سوال طربیہ یا کامیڈی ڈرامہ سے کیا مراد ہے؟
جواب جس کا انجام پر مسرت اور خوش کن حالات میں ہو معاشرتی اور ڈرامائی ناول عام طور پر اسی طربیہ انجام سے دوچار ہوتے ہیں -
*انشائیہ*: ہلکا پھلکا مضمون جس میں زندگی کے کسی موضوع کو لکھا جائے
*خاکہ*: کسی شخصیت کی مختصر مگر جامع تصویر کشی
*مضمون*: کسی معین موضوع پہ خیالات و محسوسات
*آپ بیتی*: خود نوشت و سوانح عمری
*سفر نامہ*: سفری واقعات و مشاہدات
*مکتوب نگاری*: خط لکھنا
*سوانح عمری*: کسی عام یا خاص شخص کی حیات کا بیانیہ بتفصیل.......
*اسم نکرہ کا مفہوم*-
وہ اسم جو غیر معین شخص یا شے (اشخاص یا اشیا) کے معانی دے اسم نکرہ کہلاتا ہے ــ
یا
وہ اسم جو کسی عام جگہ، شخص یا کسی چیز کے لئے بولا جائے اسم نکرہ کہلاتا ہے اس اسم کو اسم عام بھی کہتے ہیں۔
*اسم نکرہ کی اقسام*
اسم ذات
اسم حاصل مصدر
اسم حالیہ
اسم فاعل
اسم مفعول
اسم استفہام
*اسم ذات* اُس اسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کی تمیزدوسری چیزوں سے کی جائے۔
یا
وہ اسم جس میں ایک چیز کی حقیقت یا اصلیت کو دوسری چیز سے الگ سمجھا جائے اسم ذات کہلاتا ہے۔
*اسم ذات کی مثالیں*
1۔ قلم، دوات 2۔ صبح، شام 3۔ ٹیلی فون، میز 4۔ پروانہ، شمع 5۔ بکری، گائے 6۔ پنسل، ربڑ 7۔ مسجد، کرسی 8۔ کتاب، کاغذ 9۔ گھڑی،دیوار 10۔ کمپیوٹر، ٹیلی ویژن وغیرہ
*اشعارکی مثالیں*
زندگی ہو میرے پروانہ کی صورت یارب علم کی شمع سے ہومجھ کو محبت یارب
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمریوں ہی تمام ہوتی ہے
*اسم ذات کی اقسام*
1۔ اسم تصغیر 2۔ اسم مکبر 3۔ اسم ظرف 4۔ اسم آلہ 5۔ اسم صوت
*1۔اسم تصغیر ( اسم مصغرکا مفہوم)*
وہ اسم جس میں کسی نام کی نسبت چھوٹائی کے معنی پائے جائیں اسم تصغیر یا اسم مصغر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں چھوٹا ہونے کے معنی پائے جائیں تصغیر کے معنی چھوٹا کے ہیں۔
یا
*اسم تصغیر* وہ اسم ہے جس میں کسی چیز کا چھوٹا ہونا ظاہرہو۔
*اسم تصغیریا اسم مصغرکی مثالیں*
گھر سے گھروندا، بھائی سے بھیا، دُکھ سے دُکھڑا، صندوق سے صندوقچہ، پنکھ سے پنکھڑی، دَر سے دَریچہ وغیرہ
*2۔اسم مکبر*
وہ اسم ہے جس میں کسی چیز نسبت بڑائی کے معنی پائے جائیں اسم مکبر کہلاتا ہے۔
یا
*اسم مکبر* وہ اسم ہے جس میں بڑائی کے معنی پائے جائیں، کبیر کے معنی بڑا کے ہوتے ہیں۔
یا
*اسم مکبر* اس اسم کو کہتے ہیں جس میں بڑائی کے معنی ظاہر ہوں۔
*اسم مکبر کی مثالیں*
لاٹھی سے لٹھ، گھڑی سے گھڑیال، چھتری سے چھتر، راہ سے شاہراہ، بات سے بتنگڑ، زور سے شہ زور وغیرہ
*3۔اسم ظرف*
اسم ظرف اُس اسم کو کہتے ہیں جو جگہ یا وقت کے معنی دے۔
یا
ظرف کے معنی برتن یا سمائی کے ہوتے ہیں، اسم ظرف وہ اسم ہوتا ہے جو جگہ یا وقت کے معنی دیتا ہے۔
*اسم ظرف کی مثالیں*
باغ، مسجد، اسکول۔ صبح، شام، آج، کل وغیرہ
*اسم ظرف کی اقسام*
اسم ظرف کی دو اقسام ہیں
اسم ظرف زماں
اسم ظرف مکاں
*1۔اسم ظرف زماں*
اسم ظرف زماں وہ اسم ہوتا ہے جو کسی وقت (زمانے) کو ظاہر کرے
یا
ایسا اسم جو وقت یا زمانے کے معنی دے اسم ظرف زماں کہلاتا ہے۔
*اسم ظرف زماں مثالیں*
سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن، رات، صبح، شام، دوپہر، سہ پہر، ہفتہ، مہینہ، سال، صدی، آج، کل، پرسوں، ترسوں وغیرہ
*2-اسم ظرف مکاں*
اسم ظرف مکاں وہ اسم ہے جو جگہ یا مقام کے معنی دے۔
یا
وہ اسم جو کسی جگہ یا مقام کے لئے بولا جائے اُسے اسم ظرف مکاں کہتے ہیں۔
*اسم ظرف مکان کی مثالیں*
مسجد، مشرق، میدان، منڈی، سکول، زمین، آسمان، مدرسہ، وغیرہ
*4۔اسم آلہ*
اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو۔
یا
*اسم آلہ* وہ اسم ہے جو کسی آلہ یا ہتھیار کے لئے بولا جائے۔
یا
*اسم آلہ* اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو، آلہ کے معنی اوزار یا ہتھیار کے ہوتے ہیں۔
*اسم آلہ کی مثالیں*
گھڑی، تلوار، چُھری، خنجر، قلم، توپ، چھلنی وغیرہ
*5۔اسم صوت*
وہ اسم جو کسی انسان، حیوان یا بے جان کی آواز دے اسم صوت کہلاتا ہے۔
یا
*اسم صوت* وہ اسم ہے جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے۔
یا 
ایسا اسم جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے اسم صوت کہلاتا ہے، صوت کے معنی آواز کے ہوتے ہیں۔
*اسم صوت کی مثالیں*
کُٹ کُٹ مرغی کی آواز، چوں چوں چڑیا کی آواز، غٹرغوں کبوتر کی آواز، ککڑوں کوں مرغے کی آواز، کائیں کائیں کوے کی آواز وغیرہ
*2۔اسم حاصل مصدر*
ایسا اسم جو مصدر سے بنا ہو اور جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو مصدرنہ ہو لیکن مصدر کے معنی دے حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں یعنی جو مصدر کی کیفیت کو ظاہر کرے اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
*اسم حاصل مصدر کی مثالیں*
مثلاً: چہکنا سے چہک، ملنا سے ملاب، پڑھنا سے پڑھائی، چمکنا سے چمک، گبھرانا سے گبھراہٹ، پکڑنا سے پکڑ، چمکنا سے چمک، سجانا سے سجاوٹ وغیرہ۔
*3۔اسم حالیہ*
اسم حالیہ اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی فائل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔
*اسم حالیہ کی مثالیں*
ہنستا ہوا، ہنستے ہنستے، روتا ہوا روتے روتے، گاتا ہوا، ٹہلتا ہوا، مچلتا ہوا، دوڑتا ہوا،
*4۔اسم فائل*
ایسا اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کی جگہ استعمال ہو اسم فائل کہلاتا ہے۔
یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اور مصدر سے بنے اسم فائل کہلاتا ہے۔
*اسم فاعل کی مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، دیکھنا سے دیکھنے والا، سننا سے سننے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، رونا سے رونے والا وغیرہ۔
*عربی کے اسم فاعل*
اُردو میں عربی کے اسم فاعل استعمال ہوتے ہیں، جو عربی کے وزن پر اتے ہیں۔
*مثالیں*
عالم (علم والا)، قاتل (قتل کرنے والا)، حاکم (حکم دینے والا) وغیرہ۔
*فارسی کے اسم فاعل کی مثالیں*
باغبان، ہوا باز، کاریگر، کارساز، پرہیز گار وغیرہ۔
*اسم فائل کی اقسام*
اسم فائل کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں
اسم فاعل مفرد
اسم فائل مرکب
اسم فائل قیاسی
اسم فائل سماعی
*1۔ اسم فائل مفرد*
اسم فائل مفرد وہ اسم ہوتا ہے جو لفظِ واحد کی صورت میں ہو لیکن اُس کے معنی ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں۔
*مثالیں*
ڈاکو( ڈاکا ڈالنے والا)، ظالم (ظلم کرنے والا)، چور (چوری کرنے والا)، صابر (صبر کرنے والا)۔ رازق (رزق دینے والا) وغیرہ
*2۔ اسم فائل مرکب*
ایسا اسم جو ایک سے زیادہ الفاظ کے مجموعے پر مشتمل ہو اسے اسم فائل مرکب کہتے ہیں۔
*مثالیں*
جیب کترا، بازی گر، کاریگر، وغیرہ
*3۔ اسم فائل قیاسی*
ایسا اسم جو مصدر سے بنے اُسے اسم فائل قیاسی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا، آنا سے آنے والا، دوڑنا سے دوڑنے والا وغیرہ
*4۔ اسم فائل سماعی*
ایسا اسم فائل جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو، بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو، اُسے اسم فائل سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
شتربان، فیل بان، گویا، بھکاری، جادو گر، گھسیارا، پیغامبر، وغیرہ
*فاعل اور اسم فاعل میں فرق*
*1-فاعل*
فاعل ہمیشہ جامد اور کسی کام کرنے والے کا نام ہوتا ہے
*مثالیں* 
حامد نے اخبار پڑھا، عرفان نے خط لکھا امجد نے کھانا کھایا، اِن جملوں میں حامد، عرفان اورامجد فاعل ہیں۔
*2-اسم فاعل*
اسم فاعل ہمیشہ یا تو مصدر سے بنا ہوتا ہے۔
*مثالیں*
لکھنا سے لکھنے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا یا پھر اس کے ساتھ کوئی فاعلی علامت پائی جاتی ہے۔ مثلا پہرا دار،باغبان، کارساز، وغیرہ
*5۔ اسم مفعول*
ایسا اسم جو اُس شخص یا چیز کو ظاہر کرے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو اسم مفعول کہلاتا ہے۔
یا
جو اسم کسی شخص، چیز یا جگہ کی طرف اشارہ کرے جس پر کوئی فعل یعنی کام واقع ہوا ہو اُسے اسم مفعول کہا جاتا ہے۔
*اسم مفعول کی مثالیں*
دیکھنا سے دیکھا ہوا، سونا سے سویا ہوا، رونا سے رویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، سُننا سے سُنا ہوا، وغیرہ۔
اللہ مظلوم کی مدد کرتا ہے، وقت پر بویا گیا بیج آخر پھل دیتا ہے، رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے، اِن جملوں میں مظلوم، بویا ہوا، رکھی ہوئی اسم مفعول ہیں۔
*عربی کے اسم مفعول*
عربی میں جو الفاظ مفعول کے وزن پر آتے ہیں، اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
*مثالیں*
مظلوم، مقتول، مخلوق، مقروض، مدفون وغیرہ
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی دو اقسام ہیں
اسم مفعول قیاسی
اسم مفعول سماعی
*1۔ اسم مفعول قیاسی*
ایسا اسم جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہو اسم مفعول قیاسی کہلاتا ہے۔
یا
ایسا اسم جو مقررہ قاعدے کے مطابق بنایا جائے اُسے اسم مفعول قیاسی کہتے ہیں اور اِس اسم کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد لفظ ”ہوا“ بڑھا لیتے ہیں۔
*مثالیں*
کھانا سے کھایا ہوا، سونا سے سویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، رکھنا سے رکھا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، وغیرہ
*2۔ اسم مفعول سماعی*
ایسا اسم جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنے بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو اُسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔ سماعی کے معنی سنا ہوا کے ہوتے ہیں۔
یا
ایسا اسم جو کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو بلکہ جس طرح اہلِ زبان سے سنا ہو اسی طرح استعمال ہو اسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔
*مثالیں*
دِل جلا، دُم کٹا، بیاہتا، مظلوم، وغیرہ
*فارسی کے اسم مفعول سماعی*
دیدہ (دیکھا ہوا)، شنیدہ (سنا ہوا)، آموختہ (سیکھا ہوا) وغیرہ
عربی کے اسم مفعول سماعی
مفعول کے وزن پر، مقتول، مظلوم، مکتوب، محکوم، مخلوق وغیرہ
*مفعول اور اسم مفعول میں فرق*
*1-مفعول*
مفعول ہمیشہ جامد ہوتا ہے اور اُس چیز کا نام ہوتا ہے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو۔
*مثالیں*
عرفان نے اخبار پڑھا، فصیح نے خط لکھا، ثاقب نے کتاب پڑھی، اِن جملوں میں اخبار، خط اور کتاب مفعول ہیں۔
*2-اسم مفعول*
اسم مفعول ہمیشہ قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہوتا ہے۔ 
*مثالیں* 
سونا سے سویا ہوا، کھانا سے کھایا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا وغیرہ، 
*عربی میں مفعول کے وزن پر آتا ہے*: مظلوم، مخلوق، مکتوب وغیرہ، 
یا پھر 
*فارسی مصدر سے بنتا ہے* جیسے شنیدن سے شنیدہ، آموختن سے آموختہ وغیرہ
*6۔ اسم استفہام*
اسم استفہام اُس اسم کو کہتے ہیں جس میں کچھ سوال کرنے یا معلوم کرنے کے معنی پائے جائیں۔
*اسم استفہام کی مثالیں*
کون، کب، کہاں کیسے، کیوں
۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حروف تہجی سے مل کر لفظ بنتے ہیں اور لفظوں کے ملنے سے جملے بنتے ہیں ۔ جب جملوں کو ملایا جاتا ہے تو ایک بامعنی تحریر بنتی ہے ۔ شعر کے معاملے میں بھی ایسا ہی طریقہ کار ہے۔
ایک شعر میں دو لائنیں ہوتی ہیں یا یوں کہیے کہ شعر کے دو حصے ہوتے ہیں ہر لائن یا حصے کو ایک مصرع کہتے ہیں یعنی دو مصرعوں کے ملنے سے ایک شعر بنتا ہے۔
*شاعری:*
*تعریف*
کلام میں الفاظ کا استعمال اس طرح کرنا کہ مفہوم میں تاثیر اور الفاظ میں ترنم اور آہنگ پیدا ہوجائے۔
مذکورہ بالا تعریف سے دو باتیں سامنے آئیں 
1۔ *مفہوم میں تاثیر*
2۔ *الفاظ میں ترنم*
علامہ آرزو لکھنوی کے بقول:
*" مفہوم میں تاثیر سے مراد وہ اثر آفرینی ہے جسے بات میں پیدا کرنا کہتے ہیں "*
اور الفاظ کے ترنم سے مراد
*" مختلف حروف کی وہ اجتماعی آوازہے جو بغیر لکنت (رکاوٹ) کے روانی کے ساتھ زبان سے نکلے ۔ لفظوں کا وہ توازن جو اوزان عروضی کے مطابق ہو، جسے ذوق ادباء وزن کرے ۔"*
علامہ کے بیان کے مطابق دونوں باتوں کے ملانے سے یہ معلوم ہوا کہ صرف ترنم ہی سب کچھ نہیں ہوتابلکہ ان دونوں کا مرکب شاعری ہے۔
کارلائل نے بھی اس سے تقریبا ملتی جلتی تعریف کی ہے۔
*" موسیقیت آمیز اور ترنم آمیز خیالات کو شاعری کہتے ہیں ۔ "*
*شعر:* 
شعر کے لغوی معنی ہیں *دریافت کرنا یا جاننا*۔ اصطلاح میں اس موزوں کلام کو شعر کہتے ہیں جومقفیٰ ہو اور بالقصد کہا گیا ہو۔ یعنی وزن ، قافیہ اور ردیف کے ساتھ ساتھ لطیف خیال یا حسین محاکات بھی ضروری ہیں ۔ مثلا
آگ بستی کے مکانوں کو لگاتے کیوں ہو
گھر جلے اپنا تو پھر شور مچاتے کیوں ہو
ایک شعر ہے جس میں قافیہ، ردیف کے ساتھ ساتھ ایک خیال بھی قلمبند کردیا گیا ہے۔
*مصرع اولیٰ :*
شعر کے پہلے حصے یا پہلے ٹکڑے کو مصرعِ اولیٰ کہتے ہیں مثلا اوپر والے شعر میں
" آگ بستی کے مکانوں کو لگاتے کیوں ہو "
مصرعِ اولیٰ ( پہلا مصرع ) ہے
*مصرعِ ثانی :*
شعر کا دوسرا حصہ یا دوسرا ٹکڑا مصرعِ ثانی کہلاتا ہے مثلا
اوپر والے شعرمیں
" گھر جلے اپنا تو پھر شور مچاتے کیوں ہو " مصرعِ ثانی ہے۔
*ردیف:*
وہ الفاظ جو غزل کے پہلے شعر(جس کو مطلع کہتے ہیں) کے دونوں مصرعوں اور باقی اشعار کے دوسرے دوسرے مصرعوں کے آخر میں بار بار آتے ہیں ۔مثلا درج بالا شعر میں " کیوں ہو " ردیف ہے۔ اسی طرح
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئنہ مرا عکس ہے پسِ آئنہ کوئی اور ہے
اس شعر میں " کوئی اور ہے " ردیف ہے۔
*قافیہ :*
قافیہ عربی زبان کا لفظ ہے اسکی عربی جمع " قوافی " اور اردو جمع " قافیوں " ہے ۔ 
*تعریف :*
وہ ہم آواز الفاظ جو اشعار میں ردیف سے پہلے آتے ہیں اور ہم وزن ہوتے ہیں۔ مذکورہ بالا شعر میں " لگاتے اور مچاتے " قوافی ہیں۔
اسی طرح یہ شعر دیکھیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اس شعر میں جہاں اور امتحاں قافیے ہیں ۔
قافیے کو چند دیگر امثلہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جلانا ، بجھانا ، مٹانا ، گھٹانا ، رلانا ، چلانا ، سلانا ، ستانا ، بتانا ، ہنسانا ، بتانا ، سمانا ، جمانا ، چھپانا ، دکھانا ، گنوانا ، لٹانا ، بڑھانا ، چڑھانا ، پرانا ، بلانا ، کھلانا ۔۔۔۔۔ وغیرہ
غالب ، جالب ، قالب ، طالب ، جاذب ، واجب ، حاجب ، راغب ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
حیات، ممات، برات، پرات، وفات، بنات، قنات، منات، ثبات، فرات، دوات، صفات، جہات، لغات، نکات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
استاد، ارشاد، اسناد، میلاد، نقاد، آباد، ایجاد، اجداد، صیاد، ناشاد، امداد، تعداد، فولاد، اولاد، فریاد، فرہاد، معیاد، شداد، آزاد، افراد، بنیاد، اعداد، جلاد، داماد، برباد ۔۔۔۔۔ وغیرہ
امام، غلام، عوام، سلام، پیام، نیام، قیام، حرام، لگام، دوام، زکام، تمام، مسام،مقام،کلام،نظام ۔۔۔۔۔۔ وغیرہ
قافیے میں کم از کم آخری ایک حرف کا بالکل ایک جیسا ہونا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ دیکھیں اوپر دیے گئے قافیوں میں ہر مثال کے آخری حرف ایک جیسے ہیں ۔ قافیوں کے آخر میں کم ازکم ایک حرف کاباربار آنا تو ضروری ہے، مگر ایک سے زیادہ جتنے حروف باربار آئیں گے اتنا ہی قافیوں میں حُسن پیدا ہوگا ۔
( یاد رہے غزل میں ردیف کا ہونا ضروری نہیں ہوتا جبکہ قافیے کا ہونا ضروری ہوتا ہے )
*حرفِ روی :*
قافیہ میں آخری اصلی حرف ، " حرفِ روی " کہلاتا ہے۔ جیسے شرم ، بھرم ، کرم ، حرم وغیرہ میں " م " ۔
شامل ، عامل ، کامل ، تامل وغیرہ میں " ل " ۔
پیار ، چار ، ہار ، خار ، غار ، مار وغیرہ میں " ر "
قوافی میں حرفِ روی کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ حرف روی کے بغیر ممکن ہے الفاظ ہم آواز تو ہوں لیکن ہم فاقیہ کبھی نہیں ہوسکتے۔
چند اصطلاحات اور دیکھ لیں ۔
*شاعری میں لفظوں کا املا اہم نہیں بلکہ ان کی آواز اہم ہے۔* یعنی جو کچھ لکھاجاتا ہے وہ اہم نہیں ہوتا ، جو زبان سے ادا ہوش?