اردوادب
ترائیلے شعری اصناف
شاعری کی جو اصناف مغرب سے درآمد کی گئیں اُن میں سے ایک "ترائیلے" بھی ہے۔ اردو شعرا کی مختصر سی تعداد نے اس کو قبول کیا اس لیے یہ صنف اردو شاعری میں اپنی جگہ نہ بنا سکی۔ عموماََ یہ صنف فرانسیسی کہلاتی ہے لیکن شمیم احمد اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"یہ خیال غلط ہے کہ ترائیلے فرانسیسی شاعری کی
ایک ہیئت ہے۔ یہ دراصل ایک طرح کا بند ہے اور اس
کا صحیح نام ٹرایولٹ (Triolet) ہے۔ یہ بات ضرور
ہے کہ اس بند میں کہی ہوئی نظمیں عام طور پر ایک
ہی بند پر مشتمل ہوتی ہیں اور اس بند کو فرانسیسی
میں زیادہ استعمال کیا گیا ہے۔ پچھلے دو سو برسوں
سے یہ بند تقریباََ مفقود ہے۔"
یہ صنف شاعری "ترائیلے" آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلا، تیسرا اور پانچواں مصرع ہم قافیہ ہوتا ہے اسی طرح دوسرا اور چھٹا مصرع بھی ہم قافیہ ہوتا ہے۔ قوافی کے اس التزام کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ پہلا، چوتھا اور ساتواں مصرع ایک ہی ہوتا ہے جب کہ دوسرا اور آٹھواں مصرع یکساں ہوتا ہے۔ قوافی کی یہ ترتیب اور مصرعوں کا تکرار ترائیلے میں ایک خاص آہنگ پیدا کرتا ہے جس سے قاری لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ترائیلے میں اس کی مخصوص ہیئت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی مضمون یا خیال کسی بھی بحر میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ پاک و ہند کے جن شعرا نے اس صنف کو اپنایا اُن میں احمد ندیم قاسمی، گلزار اور خالد احمد جیسے نمایاں نام بھی شامل ہیں تاہم یہ امر ابھی تحقیق طلب ہے کہ اردو شعر و ادب میں سب سے پہلے ترائیلے کہنے کا سہرا کس کے سر ہے۔ نمونے کے طور پر احمد حسین مجاہد کا ترائیلے پیشِ خدمت ہے:
پاؤں پانی میں، سر ہے پتھر پر
یہ کہاں نیند آ گئی مجھ کو
کون سوتا ہے ایسے بستر پر
پاؤں پانی میں، سر ہے پتھر پر
اور اُدھر ماں نے ادھ کُھلے در پر
شاید آنکھوں میں رات کاٹی ہو
پاؤں پانی میں، سر ہے پتھر پر
یہ کہاں نیند آ گئی مجھ کو
Post a Comment
0 Comments