اُردوئے معلٰے

(ماخوذ: میر امن؎ دیباچہ باغ و بہار)
حقیقتِ اُردو بزرگوں کے منہ سے یوں سُنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوچگی ہے۔ انہیں کے راجا پرجا قدیم سے وہاں رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہُوا۔ سلطان محمود آیا، پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمد و رفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیور نے(جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا نام چلا جاتا ہے) ہندوستان کو لیا۔ اس کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار اُردو کہلایا۔ جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندان لاثانی کی سن کر حضور میں آ کر جمع ہوئی لیکن ہر کی گویا ئی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین ، سودا سلف، سوال و جواب کرتے کرتے ایک زبان اردو کی مقرر ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہاں صاحب قران نے قلعہ مبارک اور جامعہ مسجد اور شہر پناہ تعمیر فرمایا اور تخت طاؤس میں جواہر جڑایا اور دل بادل سا خیمہ چوبوں پر استادہ کر طنابوں سے کچھوا یا اور نواب علی مروان خان نہر کو لے کر آیا تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا دارالخلافت بنایا۔ تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا۔ اگرچہ دلی جدی ہے، وہ پرانا شہر )maKwاور یہ نیا شہر کہلاتا ہے اور وہاں کے بازار کو اردوئے معلٰے خطاب دیا۔

Post a Comment

0 Comments