اردوادب
اردو کا پہلا افسانہ
افسانہ کے پیش رو اور عوامی آراء:
ڈاکٹر صادق صاحب جیسے نقاد مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ افسانہ کا آغاز 1870 میں سر سید احمد خان کی تصنیف "گزرا ہوا زمانہ" سے ہوتا معلوم ہوتا ہے۔
افسانہ کی صنف اپنے ساتھ ترقی پسند تحریک کو بھی لے کر آئی۔
افسانے کی ابتداء بھی دہلی میں ہوئی اور اس کی ترویج و ترقی کے بہت سے مراحل اسی شہر میں تکمیل پائے۔1903ء اور1904ء یا1905ء تک مختصر افسانے کی ابتداء کے جو نقوش ملتے ہیں وہ دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ "علامہ راشد الخیری" کے ایک مکتوب نما افسانے کو جس کا عنوان" نصیر اور خدیجہ " ہے ۔ دہلی کا پہلا افسانہ ماناجاتا ہے اور خود اردو کا بھی۔ دہلی مختصر افسانے کی اپنی ایک تاریخ اور ایک ادبی روایت ہے۔
اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں سب سے اہم نام پریم چند کا ہے۔ پریم چند نے اردو افسانے کے لیے راہیں ہموار کیں۔ اس لیے پریم چند کو ہی اردو افسانے کا موجد قرار دیا جاسکتا ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح "ایڈ گرایلن پو" کو مغربی مختصر افسانے کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پریم چند سے پہلے بھی بہت سے ادیبوں نے افسانے لکھے لیکن وہ افسانے فنی لوازم کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے۔
پریم چند نے اپنے افسانوں میں اصلاح معاشرہ اور اس دور کے معاشرے کی عکاسی کرنے کی کوشش کی ہے اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی روایت دراصل انہی سے شروع ہوتی ہے۔
(ان شاء اللہ یہ تحریر افسانے سے متعلق ابہام کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوگی)
Post a Comment
0 Comments