ﺍﺱ ﻓﮩﺮﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺷﻌﺮﺍﺀ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ، ﺟﺎئے ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ، ﺗﺎﺭﯾﺦِ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﻭ ﻭﻓﺎﺕ ، ﺿﺮﺏ ﺍﻟﻤﺜﻞ ﯾﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺷﻌﺮ ﻭ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﮨﻢ ﯾﺎ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺑﺎﺕ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔
===========================
ﺍﻣﯿﺮ ﺧﺴﺮﻭ ﺩﮨﻠﻮﯼ ‏( ﺁﮔﺮﮦ ، 1253 ﺀ - 1325 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻧﯿﺎﺋﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺷﻌﺮ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺯﺣﺎﻝِِ ﻣﺴﮑﯿﮟ ﻣﮑﻦ ﺗﻐﺎﻓﻞ ﺩﻭ ﺭﺍﮦ ﻧﯿﻨﺎﮞ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺑﺘﯿﺎﮞ
ﮐﮧ ﺗﺎﺏِ ﮨﺠﺮﺍﮞ ﻧﺪﺍﺭﻡ ﺍﮮ ﺟﺎﮞ ! ﻧﮧ ﻟﯿﮩﻮ ﮐﺎﮨﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﭼﮭﺘﯿﺎﮞ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻭﻟﯽ ﺩﮐﻨﯽ ‏( ﺩﮐﻦ ، 1668 ﺀ - 1708 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﻏﺰﻝ ﮐﺎ ﺑﺎﻭﺍ ﺁﺩﻡ ﻧﮧ ﺳﮩﯽ ، ﻏﺰﻝ ﮐﻮ ﻧﺌﮯ ﻣﻌﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﮐﺎ ﻣﻌﻤﺎﺭ ﺍﻭﻝ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻋﺠﺐ ﮐﭽﮫ ﻟﻄﻒ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺷﺐِ ﺧﻠﻮﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻞ ﺭﺥ ﺳﻮﮞ
ﺧﻄﺎﺏ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ، ﺟﻮﺍﺏ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯽؔﺭ ‏( ﺁﮔﺮﮦ ، 1723 ﺀ - 1810 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻧﺎﻗﺪﯾﻦ ﻭ ﺷﻌﺮﺍﺋﮯ ﻣﺘﺎﺧﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺧﺪﺍﺋﮯ ﺳﺨﻦ ﮐﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮨﻮﮞ
ﺟﺴﮯ ﺍﺑﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺭﻭﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺳﯿﺪ ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﺍﻧﺸﺎﺀ ‏( ﻣﺮﺷﺪ ﺁﺑﺎﺩ ، 1756 ﺀ - 1817 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﻮ ﺯﺑﺎﻥ ﻭ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﮯ ﻗﻮﺍﻋﺪ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ " ﺩﺭﯾﺎﺋﮯ ﻟﻄﺎﻓﺖ " ﺳﮯ ﺳﯿﺮﺍﺏ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮨﺮﭼﻨﺪ ﮐﮧ ﺑﻮﻟﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻭﮦ
ﺑﺎﮨﻢ ﭘﺮ ﭼﮭﯿﮍ ﭼﮭﺎﮌ ﺳﯽ ﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺷﯿﺦ ﻏﻼﻡ ﻋﻠﯽ ﮨﻤﺪﺍﻧﯽ ﻣﺼﺤﻔﯽ ‏( ﺩﮨﻠﯽ ، 1751 ﺀ - 1825 ﺀ ‏)
ﻟﻔﻆ " ﺍﺭﺩﻭ " ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﻧﮭﯽ ﮐﮯ ﺷﻌﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺧﺪﺍ ﺭﮐﮭﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺮ ﻭ ﻣﺮﺯﺍ ﮐﯽ
ﮐﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺍﮮ ﻣﺼﺤﻔﯽ ! ﺍﺭﺩﻭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻧﻈﯿﺮ ﺍﮐﺒﺮ ﺁﺑﺎﺩﯼ ‏( ﺩﻟﯽ ، 1740 ﺀ - 1830 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﻋﻮﺍﻣﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﭨﮏ ﺣﺮﺹ ﻭ ﮨﻮﺍ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﻣﯿﺎﮞ ، ﻣﺖ ﺩﯾﺲ ﺑﺪﯾﺲ ﭘﮭﺮ ﻣﺎﺭﺍ
ﻗﺰﺍﻕ ﺍﺟﻞ ﮐﺎ ﻟﻮﭨﮯ ﮨﮯ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺑﺠﺎ ﮐﺮ ﻧﻘﺎﺭﺍ
ﮐﯿﺎ ﺑﺪﮬﯿﺎ ﺑﮭﯿﻨﺴﺎ ﺑﯿﻞ ﺷﺘﺮﮐﯿﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﻼ ﺳﺮ ﺑﮭﺎﺭﺍ
ﮐﯿﺎ ﮔﯿﮩﻮﮞ ﭼﺎﻭﻝ ﻣﻮﭨﮫ ﻣﭩﺮ ، ﮐﯿﺎ ﺁﮒ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﮕﺎﺭﺍ
ﺳﺐ ﭨﮭﺎﭨﮫ ﭘﮍﺍ ﺭﮦ ﺟﺎﻭﮮ ﮔﺎ ﺟﺐ ﻻﺩ ﭼﻠﮯ ﮔﺎ ﺑﻨﺠﺎﺭﺍ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺣﯿﺪﺭ ﻋﻠﯽ ﺁﺗﺶ ‏( ﻓﯿﺾ ﺁﺑﺎﺩ ، 1778 ﺀ - 1846 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺳﺎﺩﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺴﺮ ﮐﯽ ۔ ﮐﺴﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻣﺪﺡ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﺼﯿﺪﮦ ﮐﮩﺎ۔ ﻗﻠﯿﻞ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻨﮓ ﺩﺳﺘﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻭﻗﺎﺭ ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﺎ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺯﻣﯿﻦِ ﭼَﻤَﻦ ﮔﻞ ﮐﮭﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ
ﺑﺪﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﺭﻧﮓ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺷﯿﺦ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺫﻭؔﻕ ‏( ﺩﻟﯽ ، 1789 - 1854 ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺷﺎﮦ ﺍﮐﺒﺮ ﺛﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺼﯿﺪﮮ ﮐﮯ ﺻﻠﮯ ﻣﯿﮟ " ﻣﻠﮏ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ﺧﺎﻗﺎﻧﯽ ﮨﻨﺪ " ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﻣﺮﺣﻤﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺎﮨﺎﻧﮧ ﭘﺮ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺑﺠﺎ ﮐﮩﮯ ﺟﺴﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﺠﺎ ﺳﻤﺠﮭﻮ
ﺯﺑﺎﻥِ ﺧﻠﻖ ﮐﻮ ﻧﻘﺎﺭۂ ﺧﺪﺍ ﺳﻤﺠﮭﻮ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻣﺮﺯﺍ ﺍﺳﺪ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﺎﻥ ﻍؔﺍﻟﺐ ‏( ﺁﮔﺮﮦ ، 1797 ﺀ - 1869 ﺀ ‏)
ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭨﮭﺎﺭﮬﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ، ﺍﻧﯿﺴﻮﯾﮟ ﺻﺪﯼ ﻏﺎﻟﺐ ﮐﯽ ، ﺟﺒﮑﮧ ﺑﯿﺴﻮﯾﮟ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﯽ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏِ ﻃﺎﻋﺖ ﻭ ﺯﮨﺪ
ﭘﺮ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﻣﯿﺮ ﻣﯿﻨﺎﺋﯽ ‏( ﻟﮑﮭﻨﻮ ، 1828 ﺀ - 1900 ‏)
ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻧﺎﻣﮧ " ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻟﻠﻐﺎﺕ " ﮨﮯ ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺟﻠﺪﯾﮟ ﺍﻟﻒ ﻣﻤﺪﻭﺩﮦ ﻭ ﺍﻟﻒ ﻣﻘﺼﻮﺭﮦ ﺗﮏ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻃﺒﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺑﮯ ﻧﺸﺎﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ
ﺯﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﮔﺌﯽ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻧﻮﺍﺏ ﻣﺮﺯﺍ ﺧﺎﮞ ﺩﺍﻍؔ ﺩﮨﻠﻮﯼ ‏( ﺩﮨﻠﯽ ، 1831 ﺀ - 1905 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺟﺘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻣﯿﺴﺮ ﺁﺋﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﮑﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﻗﺒﺎﻝ ، ﺟﮕﺮ ﻣﺮﺍﺩ ﺁﺑﺎﺩﯼ ، ﺳﯿﻤﺎﺏ ﺍﮐﺒﺮ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺣﺴﻦ ﻣﺎﺭﮨﺮﻭﯼ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻌﺮﻭﻑ ﺷﺎﻋﺮ ﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﮔﺮﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﺮﻑ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺍ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻭﮦ ﺟﺐ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﭙﺎ ﺗﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﻃﺮﻑ
ﭨﮭﮩﺮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺍﻟﻄﺎﻑ ﺣﺴﯿﻦ ﺣﺎؔﻟﯽ ‏( ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺖ ، 1837 ﺀ - 1914 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺩﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺩﺑﯽ ﺗﻨﻘﯿﺪ ، ﺳﻮﺍﻧﺢ ﻧﮕﺎﺭﯼ ، ﺍﻧﺸﺎﺀ ﭘﺮﺩﺍﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﺘﯽ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﭘﺮ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻧﻤﻮﻧﮯ ﯾﺎﺩﮔﺎﺭ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺍﮮ ﺧﺎﺻﮧ ﺧﺎﺻﺎﻥ ﺭﺳﻞ ﻭﻗﺖ ﺩﻋﺎ ﮨﮯ
ﺍﻣﺖ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﺁ ﮐﮯ ﻋﺠﺐ ﻭﻗﺖ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺳﻤﺎﻋﯿﻞ ﻣﯿﺮﭨﮭﯽ ‏( ﻣﯿﺮﭨﮫ ، 1844 - 1917 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﻮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺑﭽﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺗﻌﺮﯾﻒ ﺍﺱ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﻨﺎﯾﺎ
ﮐﯿﺴﯽ ﺯﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮐﯿﺎ ﺁﺳﻤﺎﮞ ﺑﻨﺎﯾﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﮐﺒﺮ ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩﯼ ‏( ﺍﻟﮧ ﺁﺑﺎﺩ ، 1846 - 1921 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﮩﺮﺕ ﻇﺮﺍﻓﺖ ﺁﻣﯿﺰ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﮯ ، ﻣﺨﺰﻥ ﻻﮨﻮﺭ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ " ﻟﺴﺎﻥ ﺍﻟﻌﺼﺮ " ﮐﺎ ﺧﻄﺎﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮨﻢ ﺁﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺪﻧﺎﻡ
ﻭﮦ ﻗﺘﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭼﺮﭼﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺻﻐﺮ ﺣﺴﯿﻦ ﮔﻮﻧﮉﻭﯼ ‏( ﮔﻮﻧﮉﮦ 1884 ﺀ - 1936 ﺀ ‏)
ﻣﺘﻘﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﯾﻒ ﺍﻟﻨﻔﺲ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﮯ ، ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺭﺳﺎﻟﮯ " ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻧﯽ " ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺭﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﺭﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺳﺒﻖ ﻟﮯ ﻣﺤﻔﻞِ ﺭُﻭﺣﺎﻧﯿﺎﮞ ﺑﺮﺳﻮﮞ
ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﯾﮏِ ﺣﻠﻘﮧٴ ﭘﯿﺮِ ﻣُﻐﺎﮞ ﺑﺮﺳﻮﮞ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺣﺴﺮﺕ ﻣﻮﮨﺎﻧﯽ ‏( ﻣﻮﮨﺎﻥ ﺍﻧﺎﺅ ، 1875 ﺀ - 1951 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ " ﺭﺋﯿﺲ ﺍﻟﻤﺘﻐﺰﻟﯿﻦ " ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﭼﭙﮑﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﻧﺎ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻋﺎﺷﻘﯽ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺳﯿﻤﺎﺏ ﺍﮐﺒﺮﺁﺑﺎﺩﯼ ‏( ﺁﮔﺮﮦ ، 1882 - 1951 ‏)
ﺍﻥ ﮐﯽ ﻟﮑﮭﯽ 70 ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ 22 ﺷﻌﺮﯼ ﻣَﺠﻤُﻮﻋﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 370 ﺷﺎﮔﺮﺩ ﺗﮭﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮫ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﺠﮭﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺳﺮ ﻋﻼﻣﮧ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﻗﺒﺎﻝ ‏( ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ ، 1877 ﺀ - 1938 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻋﻈﯿﻢ ﻣﻔﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮِ ﻣﺸﺮﻕ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮐﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ، ﻟﻮﺡ ﻭ ﻗﻠﻢ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﯿﮟ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺧﺘﺮ ﺷﯿﺮﺍﻧﯽ ‏( ﭨﻮﻧﮏ ، 1905 ﺀ - 1948 ﺀ ‏)
ﯾﮧ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺭﺩﻭ ﺷﺎﻋﺮ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﺧﻄﺎﺏ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻧﺴﻮﺍﻧﯽ ﺣﺴﻦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﻮﺿﻮﻉ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻭﮦ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻓﻄﺮﺕ ﺑﮯ ﺧﻮﺩﯼ ﺳﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﯽ ﮨﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺷﯿﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺧﺎﻥ ﺍﺑﻦؔ ﺍﻧﺸﺎ ‏( ﺟﺎﻟﻨﺪﮬﺮ ، 1927 - 1978 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﺧﻮﺏ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺡ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﺧﻮﺏ ﺗﺮ ﺗﮭﯽ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺍﻧﺸﺎﺀ ﺟﯽ ! ﺍُﭨﮭﻮ ﺍﺏ ﮐُﻮﭺ ﮐﺮﻭ ، ﺍﺱ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﯽ ﮐﺎ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮐﯿﺎ
ﻭﺣﺸﯽ ﮐﻮﺳﮑﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺟﻮﮔﯽ ﮐﺎ ﻧﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﮐﯿﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺣﺴﺎﻥ ﺩﺍﻧﺶ ‏( ﮐﺎﻧﺪﮬﻠﮧ ، 1914 ﺀ - 1982 ﺀ ‏)
ﯾﮧ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮩﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﯽ ﻋﮑﺎﺳﯽ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﯽ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺳﺒﺰﮦٔ ﭘﺎﻣﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﺟﮧِ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﻧﮧ ﭘﻮﭼﮫ
ﺑﺎﺕ ﭼﻞ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﻏﺒﺎﮞ ﺗﮏ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﻓﯿﺾ ﺍﺣﻤﺪ ﻓﯽؔﺽ ‏( ﺳﯿﺎﻟﮑﻮﭦ ، 1911 ﺀ - 1984 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﻏﺎﻟﺐ ﻭ ﺍﻗﺒﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻣﻘﺎﻡِ ﻓﯿﺾ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺟﭽﺎ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﻮ ﮐﻮﺋﮯ ﯾﺎﺭ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﺋﮯ ﺩﺍﺭ ﭼﻠﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﮩﺪﯼ ﺭﺋﯽؔﺱ ﺍﻣﺮﻭﮨﻮﯼ ‏( ﺍﻣﺮﻭﮨﮧ ﯾﻮﭘﯽ ، 1914 - 1988 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﺩﺍﺭﺕ ﻣﯿﮟ " ﺟﻨﮓ " ﺍﺧﺒﺎﺭ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﮐﺜﯿﺮ ﺍﻻﺷﺎﻋﺖ ﺭﻭﺯﻧﺎﻣﮧ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ۔ ﺻﺤﺎﻓﺘﯽ ﮐﺎﻟﻢ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻗﺼﺎﺋﺪ ، ﻧﻮﺣﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺜﻨﻮﯾﺎﮞ ﺍﺭﺩﻭ ﺍﺩﺏ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻓﺮﯾﺎﺩ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝِ ﻣﻐﻤﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
ﺍﺭﺩﻭ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺳﺎﺣﺮ ﻟﺪﮬﯿﺎﻧﻮﯼ ‏( ﻟﺪﮬﯿﺎﻧﮧ ، 1921 ﺀ - 1980 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﻧﮯ ﺍﻧﮉﯾﻦ ﻓﻠﻢ ﺍﻧﮉﺳﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻧﺎﻡ ﭘﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﭘﺮﻭﯾﻦ ﺷﺎﮐﺮ ‏( ﮐﺮﺍﭼﯽ ، 1954 ﺀ - 1994 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﺟﺪﯾﺪ ﮐﯽ ﺷﺎﻋﺮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﻣﻘﺎﻡ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ
ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﺳﭻ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺭﺳﻮﺍﺋﯽ ﮐﯽ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﻗﺒﺎﻝ ﻋﻈﯿﻢ ‏( ﻣﯿﺮﭨﮫ ، 1913 - 2000 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺍﻓﺮﻭﺯ ﻧﻌﺘﯿﮟ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻌﺮ :
ﻣﺪﯾﻨﮯ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﻢ ﺩﯾﺪﮦ ﻧﻢ ﺩﯾﺪﮦ
ﺟﺒﯿﮟ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ، ﻗﺪﻡ ﻟﻐﺰﯾﺪﮦ ﻟﻐﺰﯾﺪﮦ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺣﻤﺪ ﺭﺍﮨﯽ ‏( ﺍﻣﺮﺗﺴﺮ ، 1923 ﺀ - 2002 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺭﺩﻭ ﻣﯿﮟ ﻣﺘﻌﺪﺩ ﻣﻨﻈﺮ ﻧﺎﻣﮯ ، ﻣﮑﺎﻟﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﺎﻧﮯ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺩﻝ ﮐﮯ ﺳﻨﺴﺎﻥ ﺟﺰﯾﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻻﺋﮯ ﮔﺎ
ﺩﺭﺩ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﺟﺪﺍ ﮨﻮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺣﻤﺪ ﻧﺪﯾﻢ ﻗﺎﺳﻤﯽ ‏( ﺧﻮﺷﺎﺏ ، 1916 ﺀ - 2006 ﺀ ‏)
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﺼﻨﯿﻒ ﮐﯽ ﮨﯿﮟ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮐﻮﻥ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻮﺕ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﺮﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺣﻤﺪ ﻓﺮﺍؔﺯ ‏( ﮐﻮﮨﺎﭦ ، 1931 ﺀ - 2008 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻼﻡ ﻋﻠﯽ ﮔﮍﮪ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺸﺎﻭﺭ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮐﮯ ﻧﺼﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﺍﺏ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺑﭽﮭﮍﮮ ﺗﻮ ﺷﺎﻳﺪ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﻮﺍﺑﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﻣﻠﻴﮟ
ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺳﻮﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﻴﮟ ﻣﻠﻴﮟ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺍﺩﺍ ﺟﻌﻔﺮﯼ ‏( ﺑﺪﺍﯾﻮﮞ ، 1924 ﺀ - 2015 ﺀ ‏)
ﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﻃﻮﯾﻞ ﻣﺸﻖِ ﺳﺨﻦ ﺍﻭﺭ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﻓﻦ ﮐﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺳﮯ ﺻﻒ ﺍﻭﻝ ﮐﯽ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺷﺎﻋﺮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺷﻌﺮ :
ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﺁﺋﮯ
ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ، ﺑﺮﺳﺮ ﺍﻟﺰﺍﻡ ================
منقول