اردو شاعری کی قدیم روایت سے لے کر عہد جدید تک، بہ استغنائے اقبال کے تمام شعرا نے عورت کے حسن و جمال، ناز و ادا، لب و رخسار اور گیسوئے دراز کے مضامین بکثرت برتے ہیں۔ اقبال وہ واحد شاعر ہیں، جنھوں نے میر کی طرح نہ محبوب کی نازک لب کی بات کی ہے، نہ غالب کی طرح عشو و ادا کو چھیڑا ہے، نہ حسرت کی طرح دھبے پاؤں کوٹھے پر انے اور پردے کو کھینچنے کی بات کی ہے بلکہ
اقبال نے اپنے کلام میں عورت کو اسلامی تعلیمات کی روح کے مطابق پیاری ماں، ہمدرد بہن، شریف شریک حیات اور فاطمہ بنت عبداللہ کی صورت میں ایک عظیم اور بہادر بیٹی بن کر پیش کیا ہے۔ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔
اسی وجہ سے اقبال بھی اس کی مشت خاک کو ثریا سے بھی بڑھ کر مقام دیتے ہیں۔ آدم خاکی ( اشرف المخلوقات)
کی تخلیق کا بڑا ستون ہونے کی بنا پر اقبال عورت کو بڑے مرتبے پر براجمان کرتے ہیں۔
اقبال کی نظر میں اگرچہ عورت کا مقام بلند ہے، لیکن صنف نازک ہونے کی بنا پر ان کا تحفظ صرف مرد ہی کرسکتا ہے، نہ کہ تعلیم اور نہ ہی دوسری زرایع۔
اقبال عورت کی عظمت کے بارے میں ضرب کلیم کی نظم
" عورت" میں فرماتے ہیں:

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا در مکنوں

مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

عورت کے تحفظ کے بارے میں ضرب کلیم ہی کی ایک نظم
" عورت کا تحفظ" میں فرماتے ہیں:

ایک زندہ حقیقت میرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد