اردوادب
احمد فراز کی رومانوی شاعری
فیض احمد فیض کے بعد احمد فراز اردو زبان وادب کے ایک ایسے شاعر ہیں، جن کے ہاں رومان اور انقلاب کا سنگم ہے۔
تاہم فیض کا انقلاب فراز کے ہاں مزاحمت کا روپ دھار لیتا ہے۔ احمد فراز اپنے عصر کی آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں کھل کر بولے۔
خلقت شہر ہیں چپ شاہ کے فرمان کے بعد
اب کسی واقف اسرار کو کیا بولنا ہے
جہاں دربار ہوں شاہوں کے، مصاحب ہوں فراز
وہاں غالب کے طرف دار کو کیا بولنا ہے
احمد فراز کی شاعری کا دوسرا اور اہم رخ رومانوی شاعری کا ہے۔ وہ ایک رومانوی تخیل کو رومانوی اور شگفتہ اسلوب میں بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔
احمد فراز کی ایک رومانوی غزل ہے، جو کل اٹھارہ اشعار پر مشتمل ہے۔ آج اس غزل کے پہلے پانچ اشعار درج کیے جاتے ہیں۔ احمد فراز کی یہ رومانوی غزل، غزل مسلسل کی بھی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ غزل انھوں نے انڈیا میں منعقدہ ایک مشاعرے کے لیے تخلیق کی تھی اور یہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ اس غزل میں مطلع سے لیکر مقطع تک ایک شہر اور اس شہر کی پری پیکر کے حسن کا بیان شگفتہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ احمد فراز کا تخیلی محبوب اتنا حسین ہے، کہ اگر بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح سجاد حیدر یلدرم کے افسانے خارستان و گلستان میں نسرین نوش کے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔
پہلے پانچ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
باقی اشعار پھر کبھی!
سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
Post a Comment
0 Comments