شعری اصناف

✴*اصناف ادب*✴
   
      🔗 *نظم*

نظم عربی زبان کا لفظ ہے ۔ لغت میں اس کے معنی موتی کو دھاگے میں پرونا ۔ انتظام کے ہیں۔ اردو میں وسیع مفہوم میں نظم سے مراد پوری شاعری ہے ۔ یعنی وہ تمام اصناف اور تخلیقات جو نثر کے بجائے شعر میں ہوں نظم کہی جاسکتی ہیں۔ خواہ ۔ قصیدہ۔ مرثیہ۔ ریاعی ۔ قطعہ ۔یا ایک شعر ہی کیوں نہ ہو۔مخصوص شعری اصطلاح میں نظم شاعری کی اس صنف کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص موضوع پر سلسلہ وار مضامین بیان کیے جائیں۔نظم کا کوئی عنوان ضرور ہوتا ہے۔ بعض نظموں میں مختلف موضوعات بھی بیان کیے جاتے ہیں لیکن وہ مرکزی خیال سے مربوط ہوتے ہیں۔ ایک ہی موضوع سے متعلق مختلف خیالات کی پیشکش کے لیے نظم کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے۔ ان حصوں یا ٹکڑوں کو بند کہتے ہیں۔ تعداد کے لحاط سےنظم میں ان کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ہندوستان میں نظم کی ابتداء محمد حسین آزاد اور حالی سے ہوتی ہے۔ ان کے علاوہ شبلی نعمانی ۔ اسماعیل میرٹھی۔ نظیر اکبرآبادی ۔ اخترالایمان نمائندہ نظم گو شعراء میں شامل ہیں۔

         🔗*پابند نظم*

ایسی نظم جس میں بحر کے استعمال اور قافیوں کی ترتیب میں مقررہ اصولوں کی پابندی کی گئی ہو پابند نظم کہلاتی ہے۔

      🔗*نظم معری*

ایسی نظم جس میں مصرعوں کے ارکان کی تعداد برابر رہے۔ یعنی ایک ہی بحر میں ہو مگر ان میں قافیہ نہ ہو نظم معری کہلاتی ہے۔ شروع میں اسے نظم عاری بھی کہا گیا۔ اس کو انگریزی میں Blank Verse کہا جاتا ہے۔ اور یہ صرف ایک میٹر یعنی ایک بحر میں لکھی جاتی ہے۔

    ۔ 🔗 *آزاد نظم*

یہ صنف نظم مغربی شاعری سے اردو میں آئی ہےاور کافی مستعمل اور مقبول ہے۔ انگریزی میں اسے Free Verse کیا جاتا ہے۔ اردو میں اس کا لفظی ترجمہ آزاد نظم کے طورپر رائج ہے۔آزاد نظم میں شاعربحر اختیار کر کے ارکان کو کم یا زیادہ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے مصرعے طویل اور مختصر ہوجاتے ہیں۔ آزاد نظم میں خیال اور جذبہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

     ۔ 🔗*نثری نظم*

شاعری میں نثر کا ایسا استعمال جس میں شعر کے خواص کے ساتھ داخلی آہنگ بھی پایا جائے نثری نظم کہلاتی ہے۔ اس میں نہ تو مصرعےبرابر ہوتے ہیں اور نہ ہی قافیہ اور بحر کی پابندی کی جاتی ہے۔ بلکہ صرف نثری ترتیب کا ہی خیال رکھا جاتا ہے۔

    ۔ 🔗*غزل*

اردو شاعری کی سب سے مشہور اور مقبول صنف ہے ۔ غزل کو اردو شاعری کی آبرو بھی کہا گیا۔ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ہے۔ لیکن اب اس میں ہر طرح کے مضامین داخل ہو گئے ہیں۔ مذہب ۔ اخلاق ۔ تصوف ۔ فلسفہ ۔ سیاست اور سماجی مسا ئل وغیرہ۔ غزل میں اشعار کی تعداد عام طور پر پانچ سے گیارہ تک ہوتی ہے۔ لیکن ایسی غزلیں بھی کہی گئیں جن میں اشعار کی تعداد زیادہ ہے۔ غزل کا ہر شعر معنی اور مطلب میں مکمل ہوتا ہے۔ اور عموما ایک شعر کا تعلق دوسرے شعر سے نہیں ہوتا ۔اور ہر شعر آزاد ہوتا ہے۔غزل کی ابتداء ایران میں ہوئی۔غزل فارسی کے وسیلے سے ہندوستان میں آئی۔ اور ہندوستانی شعراء نے اسے اپنے مزاج کے اعتبار سے ڈھال لیا۔غزل کے فروغ میں جن شعراء نے حصہ لیا ان میں ۔ میرتقی میر ۔ غالب ۔ مومن ۔ آتش۔ اقبال ۔فیض ۔ جگر ۔ فراق اور مجروح کے نام قابل ذکر ہیں۔

      ۔ 🔗*مطلع*

غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے۔ جس کے دونوں مصرعوں میں قافیہ اور ردیف کی پابندی کی جاتی ہے۔

     ۔ 🔗 *حسن مطلع*

اگر غزل کے دوسرے شعر کے دونوں مصرعوں میں بھی قافیہ اور ردیف کی پابندی کی جائے تو اسے حسن مطلع کہتے ہیں۔

   ۔ 🔗*مقطع*

غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے جس میں شاعر اپنا قلمی نام ۔ تخلص پیش کرتا ہے۔

      ۔ 🔗*ردیف و قافیہ*

شعر کا آخری لفظ جس کی تکرار تمام اشعار کے دوسرے مصرعے میں کی جاتی ہے اس کو ردیف کہتے ہیں۔ جبکہ ردیف سے پہلے آنے والے ہم وزن الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں۔

__________________________________

🔱💡 *اصناف ادب* 💡🔱

          ۔ 💥 *حمد* 💥

*اشعار کا ایسا مجموعہ جس میں خدا کی تعریف بیان کی گئی ہو۔ اس کی صفات۔ بزرگی۔اور برتری کا ذکر ہوا ہو ۔ حمد کہلاتا ہے۔ حمد ، مثنوی ۔ قصیدہ ۔ وغیرہ کا بھی جز ہوتی ہے۔ اس میں اشعار کی تعداد کا تعین نہیں کیا جاتا۔*

         ۔ 💥 *نعت* 💥

*نعت اشعار کے اس مجموعہ کو کہتے ہیں جس میں حضور صلی اللہ و علیہ واسلم کی توصیف ۔ تعریف اور سیرت بیان کی گئی ہو۔ حمد کی طرح نعت بھی ۔ مثنوی ۔ قصیدہ وغیرہ کا جز بھی ہوتی ہے اور الگ بھی لکھی جا سکتی ہے۔*

         ۔ 💥 *منقبت* 💥

*آئمہ معصومین حضرت علی کی شان میں کہی جانے والی نظموں کو منقبت کہتے ہیں ۔ لیکن خلفائے راشدین اور دیگر بزرگان دین کی مدح میں بھی منقبت کہی گئی ہے۔*

       ۔ 💥 *قصیدہ* 💥

*شعری اصطلاح میں قصیدہ ایسی نظم کو کہا جاتا ہے۔ جس میں کسی کی تعریف یا مذمت بیان کی گئی ہو۔ یہ صنف عربی سے فارسی میں اور پھر فارسی سے اردو میں داخل ہوئی۔ تخیل کی پرواز ۔ زور بیان ۔ پرشکوہ الفاظ قصیدے کی جان ہیں۔ تشبیہات اور استعارات کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ اشعار کی تعداد کم از کم 15 اور زیادہ سے زیادہ 150 تک ہوتی ہے۔ غزل کی طرح قصیدہ کا پہلا شعر مطلع اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعے مطلع کے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ اس میں کئی مطلع آسکتے ہیں۔ قصیدے کے اجزاء ترکیبی اس طرح ہیں۔*

🔍 *تشبیب*
🔍 *گریز*
🔍 *مدح*
🔍 *دعا*
🔍 *مدعا*

         ۔ 💥 *مرثیہ* 💥

*مرثیہ عربی لفظ *رثا* سے مشتق ہے۔ جس کے معنی میت پر آنسو بہانے کے ہیں۔ اردو شاعری میں مرثیہ ایسی نظموں کو کہتےہیں۔ جن میں کسی کی موت پر رنج و غم کا اظہار کیا جائے ۔ یوں تو کسی کی بھی موت پر اظہار غم کرنے کے لیے مرثیہ لکھا جا سکتا ہے۔ جیسے حالی نے غالب کا مرثیہ لکھا تھا اور اقبال نے داغ کا مرثیہ لکھا۔ مگر یہ شخصی مرثیے کہلاتے ہیں۔ اردو شاعری میں واقعات کربلا کا غم انگیز ذکر اور حضرت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت پر ماتم کا ذکر کرنے کے مرثیہ لکھا گیا۔اردو میں مرثیہ کی ابتداء دکن سے ہوئی۔ زبان و بیان کے اعتبار سے مرثیہ نگاری میں میر انیس کا کوئی ثانی نہیں اور دوسرے عظیم مرثیہ کے شاعر مرزا دبیر ہیں۔مرثیہ کے اجزائے ترکیبی ہیں۔*

🔍 *چہرہ*
🔍 *سراپا*
🔍 *رخصت*
🔍 *آمد*
🔍 *رجز*
🔍 *جنگ*
🔍 *شہادت*
🔍 *بین*

         ۔ 💥 *مناجات* 💥

*مناجات کے لغوی معنی ،دعا، عرض، التجا کے ہیں۔ اصطلاح شاعری میں وہ نظم جس میں خدا کی تعریف کرتے ہوئے اپنی حاجتوں کا اظہار عجزوانکساری کے ساتھ کیا جائے مناجات کہلاتی ہے۔*

           ۔ 💥 *مثنوی* 💥

*مثنوی کے لغوی معنی ہیں ۔ دوہرا کیا ہوا۔ یا دو دو والا۔ شعری اصطلاح میں ان مسلسل اشعار کے مجموعے کو مثنوی کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دو مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں۔ لیکن ہر شعر کا اپنا الگ قافیہ ہوتا ہے۔ مثنوی میں اشعار کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔جب کہ اس میں ہر قسم کے مضامین باندھے جاتے ہیں۔ رزم و بزم ۔ حسن و عشق ۔ پند و نصیحت ۔ مدح و ہجو ۔ غرض یہ کہ مثنوی میں ہر طرح کے مضامین کی گنجائش ہوتی ہے۔ اس میں معاشرتی تہذیب کی جھلکیاں ۔ واقعہ نگاری۔ منظر نگاری ۔ کردار نگاری کی خصوصیات پائی جاتی ہیں اس کا ہر بیان حقیقت سے قریب ۔ فطری اور قدرتی معلوم ہوتا ہے۔ میر حسن کی *سحرالبیان* اور دیا شنکر نسیم کی *گلزار نسیم* طویل مثنویوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ جب کہ *شعلہ عشق* ۔ *دریائے عشق*۔ *شکارنامہ* ۔ *جوش عشق* اور *خواب و خیال* میر تقی میر کی مختصر مثنویوں میں شمار ہوتی ہیں۔ دکن میں ۔نصرتی ۔ ابن نشاطی ۔ اور ملا وجہی نے بھی کئی مثنویاں لکھیں۔*

     ۔ 💥 *تضمین* 💥

*کسی دوسرے شاعر کے مصرعے یا پورے شعر یا غزل وغیرہ کو اپنے کلام میں اس طرح جگہ دینا کہ وہ ایک نئی نظم یا شعر کی صورت اختیار کرجائے تضمین کہلاتا ہے۔ پوری غزل پر تضمین اس طرح ہوتی ہے کہ ہر شعر پر تین مصرعے لگاتے ہیں۔ جو ہر شعر کے مصرعے اولی کے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور شعر پر تضمین یوں ہوتی ہے کہ اسے غزل یا نظم کا حصہ بنا لیا جاتا ہے۔*

     ۔ 💥 *قطعہ بند* 💥

*جب شاعر اپنی بات ایک شعر میں نہیں کہہ پاتا تو اسے اپنی بات مکمل کرنے کے لیے دوسرے شعر اور تیسرے شعر کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان اشعار میں مضمون مکمل ہوجاتا ہے۔ غزل کے ایسے اشعار قطعہ بند کہلاتے ہیں۔ قطعہ بند اشعار کے لیے طورپر غزل کے مصرعوں کے درمیان *ق* بطور اشارہ لکھا جاتا ہے۔*

           ۔ *گیت*

ہلکے پھلکے اشعار پر مبنی نظمیں گیت کہلاتی ہیں۔ گیت اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہندی الاصل صنف سخن ہے۔ اس کی کوئی خاص ہیئت نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ صنف نہ اپنے موضوع سے پہچانی جاتی ہے نہ کسی ہیئت سے۔ بلکہ اس کے شناخت اس کی تمدنی ۔تہذیبی مزاج سے ہوتی ہے۔ گیت مزاجا عورت کے دل کی پکار ہوتی ہے۔عورت کی فطرت میں تنوع۔ رنگینی۔ اور متلون مزاجی کی صفت پائی جاتی ہے۔ جو گیت کا خاصہ ہوتے ہیں۔ موسیقی کے ساتھ رقص اس کا اضافی پہلو ہے۔ اردو میں قدیم اور مستند گیت عبدالقدوس گنگوہی کے سمجھے جاتے ہیں۔قلی قطب شاہ ۔ عبداللہ قطب شاہ ۔ وجہی اور عادل شاہ وغیرہ نے گیت لکھے جن میں خود سپردگی۔ شدت احساس درد و سوز ملتا ہے۔

*پیا باج پیالہ پیا جائے نا*
*پیاباج یک تل جیا جائے نا*
*کہت ہے پیا بن صبوری کروں*
*کہیا جائے اماں کیا جائے نا* 

         ۔ *رباعی*

رباعی لفظ ربع سے ماخوذ ہے۔ ابتداء میں خانقاہی شعراء نے رشد وہدایت کے لیے اس صنف کو منتخب کیا۔ رباعی چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ پہلا ۔ دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوتا ہے۔ رباعی کا چوتھا مصرعہ بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے یہی مصرعہ ابتدائی تین مصرعوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ رباعی تصوفانہ اور اخلاقی مضامین کے لیے مختص ہے اس میں فلسفیانہ ۔ مذہبی ۔ اخلاقی ۔ اور ہر قسم کے مضامین پیش کیے جا سکتے ہیں۔امجد حیدرآبادی کو رباعیات میں نمایاں اہمیت حاصل ہے۔

Post a Comment

0 Comments