اردوادب
اردو ناول میں عورت اوراس کے جذبات کی عکاسی
وقار احمد
پی ایچ۔ ڈی سکالر،شعبہ اُردو
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
عظمت شہزاد
پی ایچ۔ ڈی سکالر،شعبہ اُردو
سرحد یونی ورسٹی آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور
ساجد اقبال
پی ایچ۔ ڈی سکالر،شعبہ اُردو
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
محمد اکرام قریشی
پی ایچ۔ ڈی سکالر،شعبہ اُردو
بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد
حکیم عبد الرؤوف کیانی
ایم فل اسکالر ،الحمد اسلامک یونیورسٹی
Abstract:
Urdu Fiction,from ab initio till date,construtionwomanhod as natural phenomenon embedden in diffrent feeling and thoughts of social life.She is unfolded as social being whose emotional life is a byproductof social odds.Herpsyche,indifferntwriting,shrinks in culture limits--marginalisingaborignal--and expands in modren settings--advocating modernity.Abusive female character is ingrained in social conditions making a point to inferior cultureof scheduled castes.The novels under discussion present a very interesting situation where corrective attitude of Molvi Nazeer Ahmad place woman in postmodern world of today reflecting all qualities of post modren world.
دنیا کے ادب پر نظر ڈالی جائے تو سب سے اہم اور اختلافی موضوع عورت ہی ہے جس کو اہلِ دانش نے اپنی عقل سے سلجھانے کی بار ہا کوشش کی جن میں شاعروں کے دیوان ،عالموں کی فصاحت، اِہل زبان اور اہلِ نظر کے تصورات نے اس کو اپنی بصیرت اور بصارت سے دیکھنے کی سعی لا حاصل کی مگرہر دفعہ ریت کی مانندمٹھی سے نکل کر دوبارہ صحرا کا حصہ بن گئی۔ ادب کے سپیروں نے اپنے منتروں سے اس کو قید کرنے کے بے شمار جتن کئے مگر ہمیشہ جوالا مُکھی کی طرح اس نے ان کو جلا کر بھسم کردیا ۔ادب کے پنڈتوں نے اپنے بھجنوں سے اس کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے اپنے حال سے بے حال اور گھر سے بے گھر ہو گئے مگر اس پر گرفت حاصل نہ کر سکے اس کو ہمیشہ ایک نئی دنیا کے سپرد ہی کرنا بہتر خیال کیا۔ اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے حمورابی کے کتبے،موسوی الواح، اشوک کی لاٹھ، اجنتا کے غار،بدھا کے اشٹمارگ، منو کے پنجتنتر،تاﺅکافلسفہ،زرتشت کی اوستا،کنفیوشس کا نظریہ، مسیح کی گواہی اس کے علاوہ جالینو س فیثاغورث،بطلیموس،اقلیدس ، لقمان، سقراط،بقراط،ارسطو، افلاطون، ابنِ سینا،عطار، رومی،رازی کی حکمت کے ساتھ خیام ،جامی، سعدی،فرینکلن، ریپوٹن، کولرج، ملٹن، ہیوگو،بائیرن، ہائپنز، رسکن ،والٹئر، سٹینلے، آرتھر مور، ایمرسن، شیکسپیئر،دانتے، تلسی،خسرو ، میر،غالب، جوش،فیض جیسے شاعروں کی شاعری نے اس کو ہمیشہ خراجِ تحسین ہی پیش کیا ہے۔ادب کے ماہر نشانہ بازوں نے تاک تاک کر تیربرسائے اور کبھی کبھی گھات لگا کر حملے بھی کیے بعض اوقات یہ نشانے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے اور بعض دفعہ رہ چلتے مسافر بھی ان کی زد میں آگئے جن کی بدولت ان کے جسم چھلنی ہو گئے اور وہ رہتی دنیا تک نشانِ عبرت بن گئے ۔انسان اس دھرتی پر ہزاروںسالوں سے موجود ہے اور موجودہ عہد تک آتے آتے اس نے بے شمار جتن کیے اس کے پیچھے معاشی، سیاسی،ذہنی،اورتہذیبی جدو جہد کی ایک طویل کہانی موجود ہے جس میں پتھر ،کانسی اور لوہے کے ادوار کو کسی صورت نہیں بُھلایا جا سکتا تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ عورت کا سب سے پہلا تصور ایک دیوی کے روپ میں اُبھرتا ہے، جو کہیں نا ہید، زہرہ اور وینس کے روپ میں سامنے آتا ہے انسان چاہےجتنی بھی ترقی کر لے عورت کو قائل کرنے والوں کی منتیں کسی صورت بھی پوری نہیںہوں گی۔ ازل سے لیکر ابد تک یہ سلسلہجاری ہے اوررہے گا ۔عورت کے وجود سے کائنات میں رنگ موجود ہے اور رہے گا ۔عورت کے بارے میں آج بھی اُن پرانےخیا لات کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ ابنِ حنیف اس بارےمیں تحریر کرتے ہیں:
” سات ہزار برس پہلے سومیریوں کے سیلاب ِ عظیم کی بابلیروایت ہو یازہرہ و مشتریطوائفوں کا اپنے حسن وصورت سے فرشتوں کا ایمان متزلزل کر کے آسمان پر چلے جانے کی پُر لطف حکائت، مادری تہذیب کی علمبردارزراعتکاروںکامذہب ہو یا موجودہ عیسائیت اور ہندو ازم، عشتار کسی روپ میں ہر جگہ جلوہ گر ہے“۔(۱)
عورت کبھی ماں،بہن ،اور بیٹی کے روپ میں جلوہ گرہوتی ہے اور کبھی ایک طوائف کی زندگی گزارنے پر اکتفا کرتی ہے عورت کے جذبات اور احساسات کو ہر جگہ سختی سے کچلا جاتا رہا اس نے اپنے حقوق کی جنگ تنہا اور اکیلےلڑی آنے والی ہر آفت کا مقابلہ کیا دنیا کے قدیممذاہب میں بھی اس کو وہ اہمیت نہ دی گئی جس کی وہ اصل معنوں میں حق دار تھی عورت کا کردارہر معاشرے میں اہمیت کا حامل ہے اور مختلف خطوں میں مختلف روپ دھارتی رہی مثلا: مشرق میں عورت مرد کے دامنِ تقدس پر داغ ہے ،رومن اسے صرف ایک جنس سمجھتا ہے، یونانی فلسفی افلاطون نے عورت کے بارے میں یہ رائے دی:
”خدایاتیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے مرد بنایا“(۲)
افلاطون کے بعد آنے والا فلسفی ارسطو جس نے اپنے ہر ایک تصور میں شاگردی کا حق ادا کیا اور استادِ گرامی کی صحیح ترجمانی کی عورت کے بارے میں اس کے خیالات کچھ اس طرح ہیں:
”جب قدرت کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہوتی ہے تو اسے عورت بنا دیتی ہے“(۳)
یونانی فلسفہ نے عورت کوشیطان کہا ، توریت نے اسے لعنت ابدی کا مستحق قرار دیا، کلیسا نے اسے بدی کا سر چشمہ قرار دیا۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو ایسی رفعت عطا کی جس کی مثال دنیا کا کوئی مذہب پیش نہ کر سکا ۔ برصغیر میں آریوں کی آمد سے قبل عورت کی سربراہی کا دور تھا جب آریہ سماج نے اس خطے کو اپنی قید میں کیا تواس نے عورت کو باندی بنانے کا نظام وید کے ذریعے رائج کیا اور اس کو قیدو بند کی وادی میں دھکیل دیا ۔اس عہد سے لیکر آج تک عورت کھل کر سانس لینے نہیں دیا گیا۔ عورت اور مرد کے تعلق کو نا پاک قرار دیا گیا اس سے رہبانیت کو فروغ ملا ۔عورت ہر قسم کے مذہبی لوازمات سے دور کر دی گئی۔پادری یہی سمجھتے رہے کہ عورت نا گزیر شر ہے ۔اس کو دیکھنے سے گناہ کا خیال پیدا ہوتا ہے ۔مسیحیت میں عورت کا جو تصور ہے اس کو شرافت حسین شفقت نے ان الفاظ میں بیان کیا:
”مسیحی ادوار میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی بلکہ وہ لونڈی سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی ۔۔۔۔۔یورپ میں عورتوں کو موت کے گھاٹاتارنے کے لیے پانی کا ٹب بھی ایک طویل مدت تک رائج رہا۔“(۴)
مغلیہ عہد میں اس کو کسی حد تک چین نصیب ہوا اور جلد ہی اس کو دوبارہ اذیت کا سامنا کرنا پڑا ۔عورت نے اپنی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور مرد سے تحفظ کی خاطر تنتر اِزم کو فِروغ دیا اس کے تحت اگر کوئی مرد یہ خفیہ حروف سیکھے گا تو اس کے لیے مردانہ عضوِتناسل سے محروم ہونا ضروری تھا۔ تنتر ازم میں عورت مقدس تصور کی جاتی تھی اس میں عورت کے مختلف روپ ہیں جن پر آج بھی کسی نہ کسی صورت یقین کیا جاتا ہے ایک عام ہندو آج بھی ہر وقت خوف زدہ رہتا ہے کہ نہ جانے کب کالی دیوی اس پر غضب ڈھادے۔اس کے بر عکس مرد نے عورت کے اثر کو زائل کرنے کے لیے دیوتاتخلیق کر لیے اور عورت کے اختیارات کو محدود کر دیااس کام کے لیے مذہب کو بنیاد بنا کر عورت کے اختیارات کی پامالی کی گئی جس کی بازگشت آج بھی کسی نہ کسی صورت سنائی دیتی ہے ۔ان حالات میں عورت کو ذہنی صلاحیتوں سے محروم کر دیا گیا۔ ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عورت اس معاشرے کی ساخت کو توڑپھوڑ کر ایک نئے معاشرے کی بنیاد رکھناچاہتی ہے۔شہنازنبی کہتی ہیں:
”مرد اور عورت عملِ تولید میں جو رول ادا کرتے ہیں وہ ان کے درمیان فساد کی اصل وجہ بن گیا ہے۔اس فساد کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے کرداروں کو بدل دیا جائے۔“(۵)
دنیا کے ہر معاشرے میں عورت کو دوسرے درجے کا شہری قرار دے کر اس کو جینے کے حق سے بھی محروم کردیا گیا عورت کی خوبصورتی اور نزاکت سے متاثر ہو کر شعرو ادب میں خصوصی مقام عطا کیا گیا مگر اس کی فطری صلاحیتوں کو نظر انداز کیا گیا اور اس کو آزادی ِ اظہار جیسی عظیم نعمت سے مشترکہ طور پر محروم کر کے پسِ پشت ڈال دیا گیا۔علم ِسیاسیات میں فرد صرف اٹھارھویں صدی میں سامنےآیااور روسو کا یہ نعرہ کہ:
”انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جدھردیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔“(۶)
یہ انفرادیت کو علمِ سیاست میں داخل کرتا ہے لیکن شخصیت اور اس کے حقوق کا دعویٰ کرنا ایسی جرات کا کام تھا کہ روسوبھی صرف نعرہ ہی لگا کر رہ گئے۔ عقد اجتماعی جس کی ابتدا ان الفاظ کے ساتھ ہوتی ہے، بعدمیں اسی کو اُلٹا ثابت کرتی ہے۔ انسان کو آزادی تو ضرور دی جاتی ہے لیکن روسو کی ریاست میں انسان کو ایک فرد بننے اور انفرادیت کے سلسلہ میں اپنے حقوق کا ذکر کرنے کا کوئی موقع نہیں دیا جاتا۔ انفرادیت کے قائل وہی لوگ ہو سکتے تھے جن میں اتنا تخیّل نہ ہو کہ وہ اس کے تمام نتائج کا ایک ساتھ خیال کر سکتے ہوں اور جن میں خودی کا جوش اس قدر ہو کہ وہ اِس عالم بے پایاں میں بھی اپنی ہستی کو ایک خاص اہمیت دے سکیں۔سترھویں صدی کے آخرحصّہ میں دو زبردست انقلاب آئے جن میں ایک امریکہ کا انگریزوں کے خلاف تھا اور دوسرا فرانسیسی انقلاب اِن دونوں میں انسان کے قدرتی حقوق کا بڑے زور و شور سے اعلان کیا گیا۔ اِن دونوں انقلابوں کو اس خیال کے پرچار کا عروج بھی کہا جا سکتا ہے۔تاریخ سے یہ تو ضرور ثابت ہو سکتا ہے کہ انسان ایک زمانہ میں بالکل وحشی تھا لیکن نہ اس کی زندگی بہت اچھی تھی اور نہ ہی اُن کے کوئی ”حقوق“ تھے۔ ”حق“ کا ذکر اُسی وقت ہو سکتا ہے جب قانون ہو اور قانون صرف ریاست یا سماج بنا سکتا ہے۔ معاہدہ اسی وقت ہو سکتا ہے اور اس کی پابندی پر لوگ مجبور اسی حالت میں کئے جاتے ہیں جب ایک سماج یا ریاست موجود ہو اور اس نے قانون کے ذریعے اسے لازمی کردیا ہو اس لیے تاریخ یا منطق سے فطری حقوق ثابت کرنا ناممکن ہے۔دیکھا جائے تو مرد کو عقل ِ کل سمجھا کیا اور عورت کو صرف مادیت پسندی ، شر ، فساد، جذباتی ،کم عقلی ،اور کمزو ر ہی جانا گیا ۔ ہزاروں سال کے انتظار کے بعد عورت نے اپنی مظلومیت کے خلاف آواز بلند کی مگر اس کی مگر اس کو فلک شگاف نعرہ کسی صورت نہ بننےدیا۔تانثیت کی بنیاد گزار مفکر سمون دی بوا کہتی ہیں:
”عورت محض وہی کچھ ہے جس کا فیصلہ مرد دے لہٰذا اِسے جنس کہا جاتا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ وہ مردوں کی نظر میں بنیادی طور پر ایک جنسی وجود ہے۔ مرد کے لیے وہ جنس ہے مطلق جنس۔ عورت کو مرد کے حوالے سے متعین اور ممتاز کیا جاتا ہے لیکن مرد کو عورت کے حوالے سے نہیں ۔عورت بنیادی کے مقابلہ میں غیر بنیادی ہے۔ مرد موضوع ہے وہ مطلق ہے۔عورت دوجا ہے۔“ (۷)
ادب ایک ایسا ذریعہ اظہار ہے جو سوچنے،سمجھنے اور بیان کرنے کی آزادی پر منتج ہے۔ اگر یہ عنصر عنقا ہو تو تحریر محض اخباری رپورٹ یا کسی پارٹی کامنشور یا صرف بیانیہ بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے جذبہ و ادراک کے اظہار کی آزادی ہی اصل ادب پیداکرتی ہے۔ ہندو سماج میں عورت نسبتَا زیادہ مسائل کا شکاررہی ہے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جانا ، کم عمری میں شادی ، ستی کا رواج اور کسی صوت بیوہ کی دوسری شادی کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ہندوعورت مرد کا سایہ بن کر رہ گئی تھی ہندوﺅں کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے مسلمانوں میں بہت سی برائیاں سرائیت کر گئی تھیں اسلام نے تو عورتوں کو بہت حقوق دیے مگر عورت کی زندگی میں اس کے اثرات کم ہی نظر آتے ہیں۔ آپنے ماضی کوبنیاد بنا کر عورت کو اس کے اصل منصب سے دور رکھا گیاجس میں اجتماعی لا شعور کے اثرات نمائیاںصورت میں جلوہ گردکھائی دیتے ہیں ۔جہاں تک اردو ناول کا تعلق ہے اس میں عورت کو محض تسکین کے طور پر لیا گیا جس میں اپنی خواہشات کا بدلا عورت کے کردار سے چکانے کی بھر پور کوشش کی گئی اور سگمنڈ فرائد کے نظریات کی پاسداری کرتے ہوئے عورت کی ایسی تصویریں پیش کی گئیں جو اس کو ظاہری زندگی میں میسرنہ تھیں۔
نسانی تمدن کی پوری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ عورت کا وجود دنیا پر ذلت ،شرم اور گناہ کاوجود تھا۔ بیٹی کی پیدائش عیب تصور کی جاتی تھی۔ کئی قوموں میں اس ذلت سے بچنے کے لیے لڑکیوں کو قتل کرنے کا رواج عام تھا۔ اسلام نے اس کی نفی کی اور عورت کو اس کا جائز مقام دلایا۔ کائنات کی ترقی میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کھڑی رہی اور اس نے اپنی خواہشات کو مرد کی خواہشات کے تابع کر دیا اس کے باوجود اس کو چادراورچاردیواری تک محدود کر دیا گیا اور اس کی تخلیقی صلاحیت کو ہمیشہ کے لیے دفنانے کی بھر پور کوشش کی جاتی رہی ابتدائی اردو شاعری سراپا نگاری سے عبارت تھی جس میں عورت محبوبہ کے روپ میں سامنے آتی ہے اور داستانوں میں اُسے ما فوق الفطرت ہستی کے روپ میں پیش کیا یہاں عورت ملکہ تھی یا شہزادی اگر وہ کنیز یا محبوبہ بھی تھی تو اتنی حسین و جمیل کہ مرد اُسے دیکھتے ہی دھڑادھڑگر کر بے ہوش ہو جاتے رجب علی بیگ سرور ”فسانہ عجائب“ میں شہزادی انجمن آرا ءکو ان الفاظ میں ےاد کرتے ہیں:” مالِک عفت و عصمت انجمن آراءیہاں کی شہزادی تھی شہرہ جمال بے مثال اس حورِ طلعت پری خصال کا از شرق تا غرب اور جنوب سے شمال تک ، زبان زدِ خلق جدا تھا اور ایک جہاںحسن کا بیان سن کر نادیدہ اس کا مبتلا تھا۔ آج تک چشم و گوش چرخ کج رفتار نے با ایں گردش لیل و نہار ایسی صورت دیکھی نہ سُنی تھی۔ مرقعِ دہر سے وہ تصویر چنی تھی۔بہت سے شاہ اورشہر یار اس کے وادی طلب میں قدم رکھ کر تھوڑے عرصے میں اوارہ دشت ادبار، پتھروں سر مار مار ، مصرع”رہ روِ اقلیم عدم ہو گے“قصہ یا کہانی کسی بھی قوم کے شعور اور تخیل کے عکاس ہوتے ہیں۔ اس میں اس قوم کے تخیل کی قوتِ پرواز کا عکس ہوتا ہے اور یہ وہ واحد آئینہ ہے جس سے قوم کی دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔
برصغیر میں اردو ادب کا چلن بہت پرانا ہے۱۸۵۷ءسے پہلے کا دور داستانوی عہد کے نام سے ےاد کیا جاتا ہے جس عہد میں ادب کی سر پرستی درباروں میں ہوا کرتی تھی اور داستانیں بادشاہوں کی فرمائش پر لکھی جاتی تھیں داستانوی ماحول سے لیکر دورِ جدید کے ناول تک عورت کے سارے رنگ موجود ہیں داستانوں میں عشق کی تسخیر کے ایسے مناظر کشید کیے جاتے تھے جن میں لذت کا بھر پور سامان موجود تھا برصغیر میں عورت مرد کے ساتھ آزادی سے نہیں مل سکتی تھی اور مرد نے اس بات کا پھر پورفائدہاُٹھایا اور عورت سے چن چن کر بدلے لیے اور اس کی آزادی کو مفلوج کر کے رکھ دیا۱۸۵۷ءکے بعد تخیل کی جگہ حقائق نے لے لی اور سائنس کی ترقی نے ہر ایک کی آنکھیں کھول دیں جس سے زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ہر ایک نے اپنی آزادی اور حقِ رائے دہی کا بر ملا اظہار شروع کر دیا ۔اردو ناول کے آغاز کا سہرالکھنوکےباشندوں کے سر دیکھائی دیتا ہے مولوی نذیر احمد کا تعلق دلی سے تھا اور رتن ناتھ سرشار کا لکھنو سے انہوں نے ناول کی صنف کو متعارف کرایا انہوں نے ناول کو ایک ایسی بصیرت بخشی جس سے آنے والے ناول نگار کسی نہ کسی صورت اب بھی استفادہ کر رہے مولوی نذیر احمد کے ناولوں میں جاگیر داری عہد کی عورت کی واضح تصویر ملتی ہے ۔اس حوالے سے ڈاکٹرزینت بشیرلکھتی ہیں :
”نذیر احمد کے ناولوں میں نسوانی کردار اس عہد کے ہندوستان بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلم گھرانوں کی مستورات کی نفسیات، ان کے خیالا ت ،نظریات ورحجانات کی منہ بولتی تصویریں اور اس عہد کی دستاویزکی حیثیت رکھتی ہیں۔“(۸)
نذیر احمد اپنے عہدکی عورتوں میں ایسی صفات دیکھنے کے متمنّی ہیں جن پر گھریلو نظام کی درستی کا انحصار ہے۔اس وجہ سے وہ تعلیمِ نسواں کے حامی ہیں ۔ ان کے خیال کے مطابق عورتوں کی بہتریں صلا حیتیں تعلیم کے بغیر مکمّل طور پر اُبھر کر سامنے نہیں آسکتیں۔ نذیر احمد خواتین کی آزادی کی بات تو کرتے ہیں مگر وہ مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور زندگی کی ڈوڑمیں شامل ہونے والی خواتین کے اختیارات کو محدود کر کے اُن کو گھر کی دہلیز تک محدود کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ان کے ناولوں میں خواتین کے کرداروں پر مذہبی چھاپ دکھائی دیتی ہے وہ عورت کی معاشی آزادی کے اس حد تک قائل ہیں کہ وہ گھر میں بیٹھ کر اپنے ہنر سے اپنی روزیروٹی کما سکیں ان کے نزدیک عورت کا سب سے اہم فریضہ گھریلو ذمہ داری ہے اور وہ عورت کو کھل کر جینے اور سانس لینے کے حامی نہیں دی کھائی دیتے۔نذیر احمد کے بعد اردو ناول میں جو اہم نام سامنے آتا ہے وہ رتن نارتھ سرشار کا ہے ان کے ناول کرداری ناول ہیں نذیر احمد کی طرح وہ اپنے کرداروں میں عورت کو نیکی اور بدی کا نمائندہ بنا کر پیش کرتے ہیں مگر ان دونوں کے درمیان فرق نصب العین کا ہے نذیر احمد کا مقصد معاشرے کی اصلاح تھا جبکہ رتن نارتھ نے اپنے روز گار کو مدِ نظر رکھا ڈاکٹر عقیلہ جاوید کے بقول” نذیر احمد اپنی روح کی تسکین چاہتے تھے جبکہ سرشارپیٹ کی“ ان کے ہاں خواتین چاردیواری کی پابند دیکھائی دیتی ہیں اور معاشرے میں رائج رسم ورواج نے ان کی زندگی کومفلوج کر کے رکھ دیا ہے سرشار نے ان کو ماہر مصور کی طرح اپنی تخلیق میں پینٹ کر دیا ہے ان کے ایسی خواتین سامنے آتی ہیں جو ہر وقت اپنے مردوں پر جان قربان کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں اور جو ملک وقوم کو اپنی بہادری سے قائل کرتی ہیں۔
مرزا ہادی رسوا نے ناول کے ارتقاءمیں اہم کام کیا جس میں ناول اپنے فنی معیار پر پورے اُترتے دکھائی دیتے ہیں انہوں نے اپنے ناولوں میں خواتین کو چاردیواری کا پابند نہیں کیا بلکہ وہ ایسے کردار سامنےلاتے ہیں جنہوں نے معاشرے کو بے حد متاثر کیاوہ چادر اور چاردیواری سے باہر دیکھتے ہیں انہوں نے عورتوں کے ایسے کردار تراشے جو لکھنوءکےنوابوں کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔مرزا ہادی کے ناولوں کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ پسماندہ اور غریب طبقے کی خواتین کواخلاقی پستی کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے جہاں وہ معاشرے کو بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتیں اور وہ جاگیردرانہ دور کی تہذیبی روایات کی امین ہونے پر فحر کرتی ہیں ان کے ہاں مذہب، اخلاق اور شرافت جیسی اقدار بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں رسوا کو تقدیر کی ماری ہوئی ان خواتین سے بے حدہمدردی ہے:
”رسوا:اُمراﺅجان!میری زندگی کا ایک اصول ہے نیک بخت عورت کو میں اپنی ماںبہن کے برابر سمجھتا ہوں۔ خواہ ہو کسی قوم و ملت کی کیوں نہ ہو اور ایسی حرکتوں سے مجھے سخت صدمہ پہنچتا ہے جواس کی پارسائی میں خلل انداز ہوں۔ جو لوگ اس کو ورغلاتے یا بد کار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔میری رائے میں گولی مار دینے کے ہیں۔ مگرفیاض عورتوں کے فیض سے مستفیدہونامیرے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔“(۹)
ناول کی روایت میں علامہ راشد الخیری کا نام کسی تعرف کا محتاج نہیں انہوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کی توہم پرستی اور ضعف الا عتقادی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان کے ہاں عورت کوآزادی اظہار جیسے مسائل کا سامنا دیکھائی دیتا ہے وہ عورت کی مغربی تعلیم کی بات تو کرتے ہیں مگر اس کو مشرقی روایات کا پابند بنانے پر بھی تُلے نظر آتے ہیں وہ خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر زندگی گزانے کا مشورہدیتے ہیں۔ پریم چند جنہوں نے افسانے کو بلندی تک پہنچادیا ان کے ناولوں میں عورت کے جذبات کی ترجمانی ملتی ہے ۔برصغیر میں موجود صدیوں پرانے رواج کو عملی صورت میں توڑنے کا کام کیا اور ایک بیوہ عورت سے شادی کرکے اس رسم پر کا ری ضرب لگادیاورعورت کو مرد کی طرح دوسری شادی کا حق دار بنا دیا جس کی وہ عرصہ دراز سے متلاشی تھی انہوں نے عورت کی مظلومی اور بے بسی کو اپنے ناولوں میں نمائیاں کیا۔
عصمت چغتائی نے اپنے ناولوں میں عورت کو عورت کے روپ میں بیان کیاانہوں نے نوجوان لڑکیوں کے احساسات و جذبات کے ایسے منطقوں کو طشت ازبام کیا جو کسی مرد کے بس کی بات نہیں تھی وہ عورت کی آزادی کے مسائل کی بات کرتی ہیں وہ خود ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور انہوں نے متوسط طبقے کی لڑکیوں کے مسائل کی جانب خاصی توجہ دی اوران کے جنسی مسائل کی جھلک اپنے ناولوں میں پیش کی ان کے ہاں گونگی اور احساس سے محروم عورت کا تصور بھی مفقود ہے جو عورت اپنے مرد کی خدمت کرتی ہے اور خاموش رہتی ہے اس کے اندر بھی احساسات کا طوفان موجود ہوتا ہے۔ عِصمت چغتائی کی اس خوبی پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کچھ اس انداز میں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
”عصمت چغتائی کے بیشترکرداروں کے پسِ منظر میں ایک ایسی عورت موجود ہے ، جو گھرکی مشین میں محض ایک بے نام ساپرزہ بن کے نہیں رہ گئی بلکہ جس نے اپنے الگ وجود کااعلان کرتے ہوئے ماحول کی سکہ بند قدروں اور رواجوں کو اگر منہدم نہیں کیا تو کم از کم لرزہ بر اندام ضرور کر دیا ہے۔“(۱۰)
عزیزاحمد کے ہاں بنیادی خیال عورت اور اس کی جنسی کشش ہے اور جہاں ان دو عناصر کی کار فرمائی ہو گی وہاں تلذذ کا پہلونمائیاں ہو گا ان کے ہاں عورت اپنے محدوددائرے میں رہ کر مرد کے شباب کو ایندھن فراہم کرتی ہے مرد عورت کے حسن سے نہیں بلکہ اس کی جنسیت سے متاثر ہوتا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر دوبارہ پلٹ کر یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی چند روزہ عیاشی نے عورت کی زندگی کو کتنااجیرن بنا دیا ہے اور گناہ کا احساس نہ اسے جینے دیتا ہے اور نہ مرنے۔ضمیر صرف عورت کو تنگ کرتا ہے۔عورت صرف مرد کے جذبات کے شعلے کو مشتعل کرنے کے کام آتی ہے۔ مرد کو صرف عورت چاہیے جس سے وہ ہم کنار ہو سکے ان کے ہاں جہاں زیادہ بھوک اور فراغت ہو وہاں بد کاری آسانی سے پنپتی ہے ۔عزیز احمد کے ہاں عورت کو صرف جنس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے آزادی اظہار کو جنسی خواہشات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور کسی کام میں اس کی قابلیت نہیں دیکھی جاتی۔ قرةالعین حیدر ایک روشن خیال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور ان کے ہاں عورت ہمیں حقیقت سے بعیددیکھائی نہیں دیتی کیوں کہ ان کے ناولوں میں ان کے اپنے ماحول کی عورت ہے جو اپنے آدرش ،جذبات،خواہشات اور تمناﺅں سمیت فنی تقاضوں کے زیرِاثر اپنے ارتقائی عمل سے گزر کر جب قاری کے سامنے آتی ہے تو دھند میں لپٹی ہوئی نہیں بلکہ مزید چمک دار رنگوں سے آراستہ ہوتی ہے۔جس تہذیب سے وہ عورت کے کردار کو کشید کرتی ہیں وہاں عورتیں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتی ہیں جس کی بدولت وہ مردوںاور نوکروں پر حکمرانی کرتی ہو دیکھائی دیتی ہیں اورآزادی اظہار جیسی نعمت کو بروِ کار لاتے ہوئے زندگی بسر کرتی ہیں۔
شوکت صدیقی عورت کے بارے میں بیشتر ترقی پسندوں کی طرح ایک خاص تصور رکھتے ہیں۔وہ عورت کو دوہرے استحصال کا شکارسمجھتےہیں ایک طرف عورت رسم ورواج توہم پرستی کی وجہ سے استحصال کا شکار ہوئی جب کہ دوسری طرف مرد کی سماجھی برتری کے باعث۔شوکت صدیقی کے ہاں معاشرے کی سچی تصویریں اُن کی معاشرے سے گہری وابستگی کا ثبوت فراہم کرتی ہیں جس میں اقتصادی معاشی اور ذہنی استحصال کے ساتھ ساتھ جنسی استحصال کی مکروہ اور گندی تصویر اُبھرتی ہے جہاں نو جوان لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے لیے اس کی ماں سے شادی کر کے اس کو زہر کے انجیکشن لگوا کر اُس کی جان لی جاتی ہے۔ان کے ہاں عورت دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر عقل وخرد کو خیر باد کہہ کر بڑے سے بڑا قدم اُٹھا سکتی ہے وہ چاہے تو اُس کی مرضی کے بغیر اس کو کوئی مرد ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔ شوکت صدیقی کے ہاں عورت کوئی تخیل کی تصویر نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کی سچی کہانی ہے جو مرد کی خلوت کا کھلونا ہے جو مجبور معاشرے کی نشانی ہے ان کے ہاں عورت کو آزادی اظہار جیسی سہولت کو مجبوری سے نوازا گیا ہے جن کی ڈور اپنے سماج کے جاگیرداروں کے ہاتھ ہے۔
ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناولوں میں عورتوں کی تین اقسام اپنی سرگرمیوںسمیت سامنے آتی ہیں ایک قسم نوابین کی بیویوں، بیٹیوں اوربہوﺅں کی ہے۔دوسری قسم متوسط شریف گھرانوں کی خواتین اور تیسری قسم لونڈیوں یا رنڈیوں کی ہے۔پہلی قسم کی عورتوں میں امیرزادیاں شامل ہیں جن کی خواہشات کا خیال رکھا جاتا ہے ان کی ضروریات زندگی ہر ممکن صورت میں پوری کی جاتیں ہیں مگر یہ خواتین چاردیواری کے اندر ہی رہ کر زندگی گزارتی ہیں۔دوسری قسم کی خواتین متوسط گھرانے کی ہیں یہ زندگی کی دوڑ میں اپنے آپ کو شامل کرنے کے لیے اپنی عزت تک کا سودا کر جاتی ہیں ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی خواہش ان کو مزید پستی میں دھکیل دیتی ہے اور معاشرے میں اپنی ناک کٹوالیتی ہیں ۔ تیسری قسم رنڈیوں اور لونڈیوں پر مشتمل ہے جو سارے سماج پر حاویدیکھائی دیتی ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ گروہ کہیں تو سہولت کار کا کام کرتی ہیں اور کہیں یہ معاشرے کا اصل چہرہ سامنےلاتی ہیں یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کے علاوہ جنسی تسکین کا باعث ہوتی ہیں دولت کو بنیاد بناکر ان کا استحسال کیا جاتا ہے اور یہ معاشرے کو سستی تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔احسن فاروقی کے ہاں عورت کا حقیقی روپ خاص اثر پیداکرتا ہے بیگمات کے کر دار میں زیادہ تر اپنے تخیل کی بات کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ان کے ہاںمائیں اور کنیزیں زیادہ فعال دیکھائی دیتی ہیں۔
ممتاز مفتی کے ہاں عورت کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت مخصوص نسوانی ساخت اور اس کی مخصوص ذمہ داریاں اور انتہائی آزاد ہونے کے باوجوداس کے وجود کے اندر جاری وساری عزِت نفس کی بحالی کی جنگ عورت کو آوارگی کے بعدراندہ یا زندہ در گور کر کے دم لیتی ہے ان کے ہاں معاشرے کا تضاد کھل کر سامنے آتا ہے اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے تو اس کی جان لے لی جاتی ہے اگر بچ جائے تو ساری زندگی اس کواس کام کی بدولت ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے اوراس لڑکے کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جو اس لڑ کی کو بھگا کر لے جاتا ہے ۔ ان کے ہاں عورت نا مساعد حالات کا شکار ہو کرجسمانی اور ذہنی مسائل کا شکار ہو کراپنے انجام کو المیہ بنا کر پیش کرتی نظر آتی ہے جس سے معاشرے کا اصل چہرہدیکھائی دیتا ہے۔خدیجہ مستور کے ہاں اگر عورت کی آزادی کی بات کی جائے تو انہوں نے متحدہ ہندوستان کے زوال آمیزاورچھوٹےزمینداروں کے سماج سے تعلق رکھنے والی عورت کے مسائل کو نمائیاں طور پر پیش کیا ہے جہان تعلیم تو ہے مگر آکسفورڈ اور کیمرج کی تعلیم نہیں جہان فیشن پرستی کلبوں،سینماہالوں کی گہماگہمی نہیں۔ جہاں شیکسپئر، ورڈزورتھ،مارکس اور ہیگل کے موضوعات نہیں یہاں تو صرف ماضی کی خوشگواریادیں ،حال کی تلخیاں مستقبل کی محرومیاں،زندگی کی گھٹن ۔ بے بسیاورلاچاری نظر آتی ہے جس کے پیچھے ماحول،مذہب اور رسم و رواج کارفرمادیکھائی دیتا ہے۔ڈاکٹر احسن فاروقی کے مطابق:
”ماحول کی جکڑبندیاں کسم اور تہمینہ دونوں سے خود کشی کراتیہیں۔ہندو مت یا اماںکی ہٹ ماحول کے رجحان ہیں۔ جن کے سامنےدونوں حسین لڑکیاں بےبسں ہیں اور مکمل طور پر پسپا ہو کر رہتی ہیں۔“(۱۱)
نثار عزیزبٹ کے ناولوں میں عورت اذیت سے نہیں ڈرتی بلکہ زندگی کے جمودسے وحشت زدہ ہے۔ کیوں کہ زندگی جیئے جانے کے قابل تبھی ہوتی ہے جب اس میں تحریک ہو اور وہ جمود کا شکار نہ ہو۔ ان کے ہاں عورت شمال مغربی سرحدی صوبے کی تاریخ اور تہذیب وتمدن میں سانس لیتی ہے۔پشتون عورت جب پیداہوتی ہے تو اس کی ولادت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا پھر اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی جب وہ کام کاج کے قابل ہو جاتی ہے تو اس کو گھر کے کام کاج میں لگا دیا جاتا ہے اور جب جوان ہوتی ہوئی دیکھائی دیتی ہے تو اس کے وارث اس کو اپنی مرضی سے بیچ دیتے ہیں اور اس کے جہیز کے پیسے اس کے شوہر سے لیے جاتے ہیں اس معاشرے میں اس کو ساری زندگی دوسروں کے تابع گزارنی پڑتی ہے اور زندگی کے امور میں اس کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اوراس کوامورِ خانہ داری میں شب و روز کی محنت صرف کرنی پڑتی ہے اس کے ارمانوں کاخون اور استحصال کیا جاتا ہے۔ انتظار حسین اردو فکشن میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ان کے ہاں عورت سماجی اعتقادات کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔نا مساعد حالات کا شکار عورت، ضعف الاعتقادی کا شکار ہو جاتی ہے اور ان پڑھ ہونے کی صورت میں دقیانوسی بھی ہو جاتی ہے ان کے ہاں جو خواتین پائی جاتی ہیں وہ اکثر شرفاءگھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو اپنے مردوں سے یا نوکرانیوں سےادھراُدھر کی سن کر اپنی محبوب معلومات سے دوسروں کو مستفیض یا ہراساں کرتی ہیں اور پھر یہی خیالات انہیں ڈراﺅنےخوابوں کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں جس کے نتیجے میں درگاہوں پر چراغ روشن کیے جاتےہیں اورگھروں میں محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے جہاں خواتین ایک بار پھر اکٹھی ہو کرطرح طرح کی افواہیں پھیلا دیتی ہیں اس معاشرے میں عیب جوئی بہترین مشغلے کے طور پر سامنے آتی ہے ان کے ہاں بھی آزادی اظہار کا فقدان دیکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر عقیلہ جاوید کے مطابق:
”انتظار حسین کے ناولوںمیں عورت کا روپ محض جلی کٹی سنانے والی کا ہی نہیں بلکہ ایسی شخصیت کے روپ میں سامنےآتاہے جو سادہ ،اداس اور خاموش ہے جس کی وجہ اس کااپنےماحول سے عدم اعتماد اور بیگانگی کا رشتہ ہے۔“(۱۲)
رضیہ فصیح احمدکا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کے ہاں عورت کا جو تصور پیش کیا گیا ہے اس کے مطابق مرد عورت کو اس کے فطری حق سے محروم کرنا بھی اپنی شان سمجھتا ہے۔وہ اپنی بیوی کو نئے ریشمی کپڑےاورزیورپہننے سے بھی منع کرتا ہے اور یہ توجیہہ پیش کرتا ہے کہ سونےکی چوڑیاں عورت کے لیے فخر کامقام نہیں بلکہ اس کی غلامی کی علامت ہے۔ جیسے لوگ گائیوں، گھوڑوں اور بچھڑوں کو سجا کر رکھتے ہیں اسی طرح پرانےزمانے کی عورتوں کو جو مرد کی ملکیت ہوتی تھیں سجا کررکھا جاتا تھا گھنگروں کی آواز اس بات کی نشاندہی کرتی تھی کہ جانورتھان پر بندھا ہوا ہے یا نہیں ۔ اسی طرح پرانےزمانے کی ساسیں ہر وقت بہوﺅں کو پائل اور چوڑیاں پہنائے رکھتی تھیں کہ انہیں خبر رہے کہ بہو اس وقت کہاں ہے۔ جہاں تک بیوہ عورت کا سوال ہے تو اس کو ساری زندگی اسی پشیمانی میں گزارنی پڑتی ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے ان کے ہاں عورت کا جو تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ کمزوراور بے بس عورت کا ہے جس کی زندگی مردوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ وہ زندگی کے خار زار کا مقابلہ کرتے کرتےراستے میں ہی دم توڑ دیتی ہے اور منزل تک نہیں پہنچ پاتی ان کو آزادی اظہار جیسی نعمت سے محروم رکھا جاتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے جس عورت کو مثالی بنا کر پیش کیا ہے اس میں کوئی عیب نہیں اس میں ہر وہ صفت موجود ہے جو اس کو مرد کے مقابلے میں لا کھڑا کرتی ہے یہ عورت اپنی صفات سے ہر ایک کو قائل کرنے کی ہمت رکھتی ہے۔ڈاکٹرانور سجاد کے ہاں عورت کے آزادی اظہار کے بارے میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ہر معاشرے میں عورت موجود ہے اگر عورت طوائف کا روپ دھارلیتی ہے تو اس کو برائی کا سر چشمہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ مرد بھی اس گناہ میں برابر کا حصہ دار ہے اور اس بے حس معاشرے میں عورت کے گلے میں برائی کا طوق ڈال دیا جاتا ہے اور مرد کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔انور سجاد نے تیسری دنیا کی عورت کو پیش کیا ہے جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہراساںہراساں زندگی کے ایام پورے کرتے دیکھائی دیتی ہے ۔اس معاشرے میں عورت کے بنیادی مسائل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی جبکہ اس کی برائی کو معاشرے کا ناسور سمجھا جاتا ہے ۔عورت جو ہر مقام پر مرد کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے اس کی تیمار داری کسی مقام پر نہیں کی جاتی اور مرد اس کے بغیر نامکمل دیکھائی دیتا ہے جبکہ معاشرے میں عورت اور مرد کے لیے دوہرا معیار بر قرار رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز احمد خان ”اردو ناول کے بدلتے تناظر“ میں اس طرح رقم طراز ہیں:
”یہ داشتہ شاید اس لیے تخلیق کی گئی ہے تاکہ بتایا جا سکے کہ اس پُر اشوب دور میں جب فرد داخلی کرب اور انتشار کا شکار ہے اسے ایک بیرونی جنسی سہارے کی ضرورت ہے“۔(۱۳)
بانوقدسیہ اردوادب میں ایک منفرد مقام کی حامل شخصیت ہیں اور ان کے ہاں۱۹۴۷ءکے بعد پیدا ہونے والی نسل کے مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے اس دورمیں نئی نسل جاگیردرانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کر کے ترقی یافتہ دور میں داخل ہو رہی ہے اور انکے مسائل جاگیردرانہ دور سے مختلف دیکھائیدیتے ہیں ان کے ہاں نئی نسل کی عورت آزادی کی خواہاں ہے مگر وہ اس معاشرے کے ہاتھوں مجبور ہے ۔غریب گھرانے کی لڑکیاں اپنی آنکھوں میں بہتر مستقبل سجائےمادیت پرستی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اپنی شناخت کھوجاتیں ہیں۔عبداللہ حسین جنہوں نے ”ادس نسلیں“سےشہرت دوام حاصل کی ان کے ہاں عورت کے جذبات کا اظہار صرف اور صرف اپنے جسم کی نمائش میں سامنے آتا ہے۔ان کے ہاں عورت کوئی غیر مرئی شبیہ نہیں جو اپنے محبوب کے ہاتھ نہ آئے بلکہ وہ ایک ٹھوس بدن رکھنے والی ایسی عورت ہے جو اپنے محبوب پر اپنے بدن کے اسرار کا انکشاف کرتی ہے اور اپنی بے تابیوں کابر ملا اظہار کرتی ہے جو بے نام اور نیم روشن جذبے کی صورت میں اپنے محبوب کو مشکل ترین وقت میں سنبھالے رکھتی ہے۔راجندرسنگھ بیدی نے عورت کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں عورت دُکھوں کی ماری ،محرومی، ماں کی ممتا ،بیوی کے جذبئہ درد مندی سے سرشاردیکھائی دیتی ہے یہ عورت ہندوستان کے نچلے طبقے کی نمائندہ ہے جو اپنے شوہر سے بلا قصور مار کھاکھاکرلہولہان ہو جاتی ہے اور معمول کے مطابق گھر کے کام کاج سنبھالنے میں لگ جاتی ہے۔ جب اس کا شوہر قتل ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی آسان ہونے کی بجائے مزید دشوار ہو جاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ایک لا وارث عورت کے جذبات کی کوئی قدر نہیں کی جاتی بلکہ اس کی زندگی کو تنگ کر دیا جاتا ہے اور وہ اپنے بچوں کی پرورش انتہائی کسمپرسی کے حالات میں کرتی ہے اور وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہے اور ایسے اقدامات کرنے پر اُتر آتی ہے جس کی اجازت ہمارا معاشرہ نہیں دیتا آزادی اظہار جیسی نعمت سے محروم رکھناہمارے معاشرے میں اجتماعی لاشعور کی عکاسی کرتا ہے عورت کو دباکررکھنا اور اس کا استحصال کرنا ایک لازمی جز معلوم ہوتاہے۔
اردو ناول میں جہاں تک آزادی اظہار کا تعلق ہے اس میں عورت کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا اور ادیبوں نے اس کے جذبات کی جانب کوئی توجہ نہیں دی انہوں نے اس کو اپنے سکون اور ادب میں رنگینی پید ا کرنے کی خاطر استعمال کیا ۔ناول میں عورت کو محض موضوعات کی خاطر استعمال کیا گیا زرعی انقلاب نے جہاں ا پنائیت کا احساس پیداکیا وہیں اس نے عورت کے حقوق سَلب کر لیے اور مرد کی حکمرانی تسلیم کر لی ۔زرعی انقلاب نے زمانہ مجریہ کے مادری نظام معاشرہ کا خاتمہ کر دیا اور پدری نظام معاشرہ برسرکار آ گیا۔ اب مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہو گئی۔ اس نے عورت پر تو عصمت و عفت کی کڑی شرط عائد کر دی لیکن اپنے آپ کو اس سے مستثنےٰ سمجھنے لگا۔ چنانچہ دنیا کی کسی زبان میں ”دوشیزہ مرد“ کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں:
”جاگیردارانہ معاشرے میں عورت کی حیثیت ہمیشہ ملکیت کی ہوتی ہے۔ جہاں اس کی آزادی، حقوق اور رائے مرد کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ اس معاشرے کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ ایسی اقدار کو فروغ دیا جائے جن کے ذریعے عورتوں کو مرد کا تابع اورفرماںبردار رکھا جائے اور اس کی آزادی کے تمام راستے مسدود کر دیئےجاتے ہیں“۔(۱۴)
صنفی امتیاز پدرسری قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرتی ڈھانچے کی باقیات ہے۔ قریباًڈیڑھ صدی قبل رونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے زیر اثر سماجی رویوں، اقدار، رسوم و رواج اور اداروں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مسلم معاشرے تک رسائی حاصل نہ کر پائیں اور اس کی ان جگہ پر تاریخی وجوہات ہیں جو گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہیں۔ نوآبادیاتی حکمرانوں کے زیر اثر ہم جدیداخلاقیات کے ساتھ جبری طور پر وابستہ تو ضرور ہوئے لیکن اس تعلق نے عورت کے سماجی رتبے پر بہت کم مثبت اثرات اور تبدیلیاں مرتب کیں۔ آج بھی پاکستان میں پیدا ہونے والی کسی بچی کا مقدر کوئی قابلِ رشک امر نہیں۔ قابل نفریں امتیازی رویوں، معاشرے کے مرکزی دھارے سے بدترین انداز میں الگ تھلگ رکھے جانے اور نقل و حرکت پر جبریپابندیوں کے ہاتھوں مفلوج ہونے کی وجہ سے یہاں عورت ہونے کا مطلب کمتردرجے کے انسان کے طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے مستقلاًسسک سسک کر زندگی گزارناہے۔عورتوں کے لیے تعلیم کے حق سے انکارجاگیردارانہ قبائلی معاشروں کا مستقل مسئلہ رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیمی سہولیات بہت محدود ہوتی ہیں اور لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے سکول اور بھی کم تعداد میں موجود ہیں۔ عورتوں کی تعلیم کے خلاف پیش کیے جانے والے سب سے نمایاں استدلال یہی پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے بچیاں خود سر ہو جائیں گی اور دم گھٹنے والا مگر زوال پذیرپدرسری نظام ڈھ جائے گا۔ہر برس ہزاروںعورتیںزچگی کے دوران وفات پا جاتی ہیں۔ اس کا سبب وضع حمل کے وقت طبی سہولیات تک رسائی نہ ہونا ہے۔ بیگم شمیم چوہدری اس سلسلہ میں لکھتی ہیں:
”زچگی میں خواتین کو میڈیکل کی سہولیات کا فقدان ہے کہیں رواجی ثقافت ان کے آڑے آتی ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری خواتین کا دروان زچگی انتقال کر جانا ایک عام سی بات ہے۔“(۱۵)
لوگ مفروضہ معاشی بوجھ کو بچی کی پیدائش پر دکھ محسوس کرنے کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ بچی کی پیدائش سماجی اعتبار سے ہزیمت کا ذریعہ ہے یا پھر یہ کہ بیٹی اپنے ہونے والے خاوند کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے اپنے والدین کے گھر میں اس کی حیثیت ایک اجنبی کی ہے۔ گھریلو سطح پر عورتیں بالخصوص بیٹیوں کے ساتھ خوراک، تعلیم، صحت اور تفریح کے مواقع جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں امتیازی سلوک روا رکھتے ہیں۔جاگیردارانہ اور قبائلیمعاشروں میں عورتوں کو جذباتی اور بے وقوف قرار دینے کا چلن عام ہے۔ سماجیات کے ماہرین صنف اور جذبات کے بارے میں دو اہم نظریے پیش کرتے ہیں۔ جذبات کے پہلے نظریے یعنی معیارینظریے کے مطابق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خواتین اس بناءپر زیادہ جذباتی ہوتی ہیں کہ ہماری ثقافت انھیں جذباتیت کا مظاہرہ کرنا ہی سکھاتی ہے اور ہماراکلچرمردوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو دبا کر رکھیں۔ دوسرا نظریہ جسے جذبات کا ساختی نظریہ کہا جا سکتا ہے اس کے مطابق عورتیںمردوں کے مقابلے میں بہت کم سماجی مواقع حاصل ہونے کی وجہ سے زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں عمومی طور پر کمتر مرتبہ، قوت اور اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور اس محرومی کا ظہور جذباتی سطح پر ہوتا ہے جس سے عورتیں مقابلتاً ناخوش، عدم محفوظ اور بے سکون نظر آتی ہیں۔ عورتوں کی بے دست وپائی، عزت و وقار سے محرومی اور امتیازی رویوں کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہٰذا ان میں جذبات کا رجحان پایا جانا کوئی اچنبے کی بات نہیں۔
عورت کی شادی کر لینے کی صورت میں زمین کی وراثت اس کا نام منتقل ہونے سے روکنے کی غرض سے کئی غیر اسلامی رسمیں موجود ہیں۔ ان رسوم و رواج میں کاروکاری (خاندان کی کسی خاتون رکن کو بداخلاقی کے الزام میں قتل کر دینا) پیرجوڈاچی (بیٹی یا بہن کی شادی کے حق سے محروم کرنے کے لیے کسی مذہبی پیشوا کی داسی بنانے کا اعلان کر دینا) اور وٹےسٹے کی شادیاں شامل ہیں۔ ایک اور بدترین رسم قرآن سے شادی کی ہے جس کا رواج دنیا بھر کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے درمیان صرف سندھ ہی میں پایا جاتا ہے۔ اس عمل کا مطلب یہ ہے کہ متعلقہ عورت کو عمر بھر کنواریرکھنا ہے تاکہ اس کے حصے کی جائیدادشادی کے بعد کسی دوسرے خاندان کے حصے میں نہ آئے۔ سندھ میں رائج اس غیر تحریری قانون کے مطابق اس قبیح رسم کا شکار ہونے والی عورت کو شوہر کے بغیرساری زندگی گزارناہوتی ہے۔ یہ رسم بھی ان بڑی جاگیروں کے مالک اشرافیہ میں پائی جاتی ہے۔دیہی علاقوں میں عورتیں بیگار پر مامورغلاموں کی مانند ہیں۔ اپنے والد، بھائیوں یا شوہر کی بلاچوں چراں اطاعت ان کی زندگی کا مقصد ہے۔ وہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتیں کیونکہ مروجہ سماجی اور ثقافتی روایات کے مطابق انھیں احمق تصور کیا جاتا ہے۔ عورتیں اپنی عزت کے مسئلے پر سنگین خطرات سے دوچار رہتی ہیں کسی بھی بے بنیاد وجہ اوربہانے پر انھیں اپنی زندگی کے حق سے محروم کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔ عورت کے حق آزادی کو اچھے چال چلن، تحفظ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں سے روکنے کے نام پر محدود کر دیا جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں عورتوں کی اکثریت کھیتوں میں کام کرتی ہے۔ انھیں گھر کے سارے کام کاج کھانا بنانا، برتن دھونا، کپڑےدھونا، گھر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا۔ بچےپالنا اور اس کے ساتھ کنبے کے مرد ارکان کے ہمراہ کھیتوں میں کام کرنے کے باوجود انھی کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور مروجہ نظام اس انسانی مزدوری کا کوئی معاوضہ نہیں دیتا او ر نہ ہی محنت کی کوئی قدر کی جاتی ہے ۔پاکستان کے دیہاتوں میں کسی بھی عورت کی شناخت ایک مرد کی ماں، بیوی، بہن یا بیٹی کے طور پر کی جاتی ہے۔ اپنی پیدائش کے روز سے اسے کسی دوسرے فرد یعنی اپنے کسی رشتے دار مرد کی شناخت کے ساتھ زندگی گزارناہوتی ہے۔ اس بات کا ایک اور پہلو تحفظ کا وہ احساس ہے جو عورت کو کبھی گھر سے باہر نکل کر کام کاج یا کاروبار اور تجارت کے تصور سے بھی دور رہنے والے خانہ نشین فرد ہونے کے ناطے حاصل ہوتا ہے۔ اس احساس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس کی تمام ضروریات پوری کرنے اور زندگی کی ہر آسائش فراہم کرنے کی ذمہ داری گھر کے مرد کی ہے اور وہ ایسی شہزادیاں ہیں جنھیں کام کے بارے میں سوچنے کی اجازت بھی نہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ سہولت صرف گنے چنے لوگوں کے پاس دستیاب ہیں۔ دیہی علاقوں کی عورتیں کوئی شہزادیاں نہیں۔ یہ غریبکسانوں کی بیویاں یا بوڑھے ا فراد کی بیٹیاں ہیں۔ جسے اپنے کنبے کی دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے اس عمر میں بھی مشقت کرنا پڑتی ہے جب وہ حاملہ ہوتیں ہیں۔اس قدر مقید رہنے والی عورت کیا کبھی آزادی اظہار اپناسکتی ہے۔
حوالا جات
۱۔ ابنِ حنیف، ہزاروں سال پہلے، مکتبہ کارواں،لاہور،۱۹۶۰ء،ص:۲
۲۔ علی عباس جلالپوری،عام فکری مغالطے،لاہور،تخلیقات،۲۰۱۳ء،ص:۱۶۱
۳۔ ایضاََ
۴۔ شرافت حسین شفقت،سید،عورت ،مذہب اور حکومت،لاہور،نسیم بک ڈیو،س۔ن،ص:۲۰
۵۔ سیمون دی بوا،عورت،مترجم: یاسر جواد،لاہور: فکشن ہاﺅس،۲۰۱۰ء،ص:۱۶۷
۶۔ شہنازنبی،”انتہاپسندتانثیت“مشمولہ:تانثیت اور ادب،مرتبہ:انورپاشا،ص:۱۲۹
۷۔ روسو،ژاںژاک، معائدہ عمران، مترجم، ڈاکٹرمحمود حسین، بک ہوم، لاہور، ۲۰۰۳ء،ص:۴۱
۸۔ زینت بشیر، ڈاکٹر، نذیر احمد کے ناولولوں میں نسوانی کردار، الیاس ٹریڈرز،حیدرآباد، ۱۹۹۱ء،ص:۱
۹۔ محمد ہادی، رسوامرزا،اُمراﺅ جان ادا،اردواکیڈمی سندھ،کراچی،۱۹۶۱ء،ص:۲۴۰
۱۰۔ وزیر آغا، ساختیات اور سائنس،مکتبہ فکر وخیال، لاہور۱۹۹۱ء،ص:۷۱
۱۱۔ احسن فاروقی،ڈاکٹر”آنگن پر دوسری نظر“ فنون، لاہور،مئی جون۱۹۶۵ء،جلد۔۱،شمارہ۱۔۲
۱۲۔ عقیلہ جاوید ،ڈاکٹر”اردو ناول میں تانثیت “ شعبہ اردو بہاءالدین یونیورسٹی ،ملتان،۲۰۰۵ء،ص:۲۱۹
۱۳۔ ممتاز احمد خان،ڈاکٹر،”اردو ناول کے بدلتےتناظر“ویلکم بک پورٹ لمیٹڈ،کراچی ،۱۹۹۳ء،ص:۲۸۷
۱۴۔ مبارک علی، ڈاکٹر، المیہ تاریخ، فکشن ہاﺅس، لاہور، ۱۹۹۵ء، ص:۶۷
۱۵۔ بیگم شمیم چوہدری، حقوقِ نسواں بھی انسانی حقوق ہیں، مشمولہ ماہنامہ عوامی منشور، کراچی، جلد نمبر ۱۰، شمارہ نمبر ۱۲، مارچ۲۰۰۶ء، ص:۳۸
Post a Comment
0 Comments